Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور سلیمان نے پرندوں کی حاضری لی تو کہا کہ کیا بات ہے جو میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں، کیا وہ کہیں غائب ہے ؟
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا پرندوں کی حاضری لینا، ہدہد کا غائب ہونا اور ملک سبا سے ایک ملکہ کی خبر لانا اور اس کے نام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط لیجانا اور ملکہ کا ہدیہ بھیجنا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت انسان جنات چرند پرند سب پر تھی وہ ان سب کے بادشاہ تھے، اور یہ چیزیں ان کے لشکر کا جزو تھیں ایک بار جانوروں کی حاضری لی تو جانور جمع ہوگئے لیکن ان میں ہدہد حاضر نہیں ہوا (ممکن ہے انہوں نے ہر جنس کے بڑے ہی کو بلایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تمام جانوروں کو جمع ہونے کا حکم دیا ہو سب جانور جمع ہوگئے ہدہد بھی سب آگئے لیکن ان کا سردار حاضر نہ ہوا ہو) جب مطلوبہ ہدہد کو انہوں نے حاضر نہ پایا تو فرمانے لگے کیا بات ہے مجھے ہدہد نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا کسی ایسے گوشہ میں ہے جسے میں دیکھ نہیں پاتا یا وہ موجود ہی نہیں ہے اسے یا تو سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا الا یہ کہ اپنی غیر حاضری کا عذر واضح دلیل کے ساتھ بیان کرے، ابھی ذرا سی ہی دیر گزری تھی کہ ہدہد حاضر ہوگیا اور اس نے کہا کہ میں ملک سبا میں چلا گیا تھا اور میں ایسی چیز کی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں ہے (علم ایسی ہی چیز ہے جس سے بات کرنے کا حوصلہ ہوجاتا ہے) ۔ میں ملک سبا سے ایسی خبر لایا ہوں جو بالکل یقینی ہے اور وہ خبر یہ ہے کہ وہاں ایک عورت کی بادشاہت چلتی ہے اس عورت کے پاس شاہی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ایک بڑا تخت ہے جس پر وہ بیٹھتی ہے یہ عورت اور اس کی قوم کے لوگ مشرک ہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو تنہا ہے اور معبود حقیقی ہے سورج کو سجدہ کرتے ہیں شیطان ان کے پیچھے لگا ہوا ہے اس نے ان کے اعمال شرکیہ کو مزین کردیا ہے اور انہیں راہ حق سے ہٹا رکھا ہے، راہ حق تو یہ ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے اور ان سب چیزوں کو جانتا ہے جنہیں آپ لوگ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں، شیطان نے راہ حق سے ہٹا کر انہیں شرک پر لگا دیا ہے اب وہ اسی پر جمے ہوئے ہیں، جبکہ ساری مخلوق پر لازم ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب ہدہد نے اپنا بیان دے دیاتو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا ہم ابھی پتہ چلا لیتے ہیں کہ تو اپنی بات میں سچا ہے یا جھوٹا ہے میں ایک خط لکھتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ بھیجتا ہوں میرا یہ خط لیجا اور جہاں ملکہ سبا اور اس کے درباری لوگ بیٹھتے ہیں وہاں جا کر اس کو ڈال دینا پھر وہاں سے ہٹ جانا تاکہ وہ اسے پڑھیں اور آپس میں گفتگو اور مشورہ کریں وہاں سے ہٹ تو جانا لیکن اتنی دور بھی نہ ہوجانا کہ ان کی باتوں اور مشوروں کا پتہ نہ چلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط لکھا جس کے الفاظ یہ تھے (اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ) (بلاشبہ وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن ہے رحیم ہے تم لوگ میرے مقابلہ میں بڑائی نہ جتاؤ اور میرے پاس فرماں بردار ہو کر آجاؤ) ۔ اس خط لکھنے کا یہ ادب معلوم ہوا کہ خط لکھنے والا پہلے اپنا نام لکھے تاکہ مکتوب الیہ کو معلوم ہوجائے کہ جو خط میں پڑھ رہا ہوں وہ کس کی طرف سے ہے۔ دوسرا ادب یہ معلوم ہوا کہ خط کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جائے۔ اگرچہ کسی کافر کے نام خط لکھا جا رہا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے جو شاہ روم ہرقل کو دعوت اسلام کا خط لکھا تھا اس کی ابتداء بھی اسی طرح ہے کہ پہلے آپ نے اپنا اسم گرامی لکھا پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد عبداللہ و رسولہ الی ھرقل عظیم الروم سلام علی من اتبع الھدی تحریر فرمایا اس میں سلام کا اضافہ ہے لیکن السلام علیکم نہیں ہے بلکہ یوں ہے کہ اس پر سلام ہو جو ہدایت کا اتباع کرے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے بھی والسلام علی من اتبع الھدی فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ زبانی یا تحریری طور پر کافروں کو سلام نہ کیا جائے اگر ان کو سلام کرنا ہو تو سلام علی من اتبع الھدی یا اس کے ہم معنی الفاظ کہہ دیں یا لکھ دیں چونکہ سلام لکھنا کوئی فرض واجب نہیں ہے اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے مکتوب گرامی میں تحریر نہیں فرمایا، یہ معلوم ہوچکا تھا کہ جس عورت کو خط لکھا جا رہا ہے وہ اور اس کی قوم سورج کو سجدہ کرتے ہیں اس لیے اللہ کا نام شروع میں لکھ دیا اور یہ بھی بتادیا کہ وہ رحمن و رحیم ہے اس کی طرف رجوع کریں گے تو اس کی رحمت سے نوازے جائیں گے، پھر بڑی جسارت اور دلیری کے ساتھ تحریر فرمایا کہ تم لوگ مقابلہ میں بڑے نہ بنو۔ تکبر نہ کرو اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ تم میرے پاس فرماں بردار ہو کر آجاؤ، خط لکھ کر ہدہد کے حوالے کردیا۔ حسب الحکم ہدہد نے خط لے جا کر اس مجلس میں ڈال دیا جس میں ملکہ سبا اور اس کے ارکان دولت موجود تھے وہاں خط ڈال کر ہدہد ذرا دورہٹ گیا ملکہ نے خط کھولا پڑھا اور اس کا مضمون اپنے درباریوں کو سنایا، خط بہت جاندار تھا کسی صاحب اقتدار کو یہ لکھا جائے کہ تم میرے مقابلہ میں بڑے نہ بنو اور فرماں بردار ہو کر آجاؤ، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، ملکہ سبا نے سمجھ لیا کہ خط لکھنے والا ہم سے بڑھ کر صاحب اقتدار معلوم ہوتا ہے، اگر ہم کوئی الٹا سیدھا جواب لکھ دیں تو یہ اپنی بڑائی جتانا ہوگا، اگر صاحب مکتوب نے ہم پر حملہ کردیا تو ممکن ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں، جس سے ہماری حکومت بھی تباہ ہوجائے اور رعیت کو بھی نا گوار احوال سے دو چار ہونا پڑے لہٰذا ہمیں سنجیدگی سے بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ سے نبٹنا چاہیے۔ خط پڑھ کر ملکہ سبا نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کرتی اس لیے اب تم مشورہ دو کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ ارکان دولت نے کہا جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے تو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں، رہا مشورہ کا معاملہ تو فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے جو مناسب ہو اس کے لیے حکم کیجیے۔ ملکہ نے کہا کہ بیشک ہم طاقتور اور صاحب شوکت ہیں، لیکن سلیمان کے معاملہ میں ہم کو عجلت نہیں کرنی چاہیے، پہلے ہم کو اس کی قوت و طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جس عجیب طریقہ سے ہم تک یہ پیغام پہنچا ہے وہ اس کا سبق دیتا ہے کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے، میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں جو سلیمان کے لیے عمدہ اور بیش بہا تحائف لے جائیں اس بہانہ سے وہ اس کی شوکت و عظمت کا اندازہ لگا سکیں گے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اگر واقعی وہ زبردست قوت و شوکت کا مالک اور شاہنشاہ ہے تو پھر اس سے ہمارا لڑنا مصیبت کو دعوت دینا ہے اس لیے کہ صاحب طاقت و شوکت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور با عزت شہریوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں۔ ہمیں بلاوجہ بربادی مول لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ چنانچہ ملکہ نے چند ہدایا اور تحفہ جات تیار کیے اور اپنے چند اہل کاروں کو قاصد بنا کر بھیج دیا جب وہ لوگ یہ اموال ہدایا اور تحفے لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم لوگ مال کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہتے ہو جس کی وجہ سے یہ تحفے لائے ہو ؟ سو اللہ نے مجھے جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، (کیونکہ تمہارے پاس تو زمین ہی کا کچھ حصہ ہے اور میرے لیے تو زمین کے اندر تانبے کی نہر بہہ رہی ہے اور میری فوج میں انسان بھی ہیں جنات بھی ہیں وحوش بھی ہیں اور طیور بھی ان چیزوں کا حضرت سلیمان کے جواب میں تذکرہ نہیں ہے البتہ (مَا اٰتَانِیَ اللّٰہُ ) کے عموم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مزید فرمایا (بَلْ اَنْتُمْ بِھَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ ) یعنی ہمیں تو تمہارے تحفوں کے ملنے کی خوشی نہیں ہے بلکہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو رہے ہو پھر قاصدوں میں جو ایک خصوصی قاصد تھا اس سے فرمایا کہ (ارْجِعْ اِِلَیْہِمْ ) کہ جاؤ ان کے پاس واپس چلے جاؤ (اور اپنے ہدایا بھی لے جاؤ کما فی روح المعانی) اگر ہماری بات نہ مانی اور ہمارے پاس فرماں بردار ہو کر نہ آئے تو ہم ان کے پاس ایسی فوجیں لے کر آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہ کرسکیں گے اور ہم ان کو وہاں سے ذلیل کر کے نکالیں گے۔
Top