Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے وہ بندہ جو ایمان لائے ہو بلاشبہ میری زمین کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو،
ہجرت کی اہمیت اور ضرورت معالم التنزیل (جلد 3 ص 472) میں علامہ بغوی ؓ نے لکھا ہے کہ آیت (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا) (الآیۃ) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا وہاں کے مقامی حالات کی وجہ سے (جو کافروں کی طرف سے دکھ تکلیف کی صورت میں پیش آتے رہتے تھے) اپنا ایمان ظاہر کرنے سے قاصر تھے، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میری زمین وسیع ہے فراخ ہے یہاں سے ہجرت کر جاؤ، دشمنوں کے خوف کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرسکتے ہو تو اس شہر کو چھوڑ دو اور میری عبادت میں لگو۔ اس وقت مدینہ منورہ دارالہجرۃ تھا، رسول اللہ ﷺ اور بہت سے صحابہ مدینہ منورہ پہنچ گئے تھے اور اس سے پہلے بہت سے صحابہ حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے، کوئی شخص اللہ کے لیے وطن چھوڑ کر ہجرت کرنے کو آمادہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور رہنے کا ٹھکانہ ملتا ہے، جیسا کہ سورة نساء میں فرمایا : (وَ مَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ) (اور جو شخص اللہ کے لیے وطن چھوڑے وہ زمین میں جانے کی بہت سی جگہ پائے گا اور اسے کشادگی سے جگہ ملے گی) چونکہ وطن کو مستقل طریقہ پر چھوڑ دینا دنیاوی حالات کے اعتبار سے ایک مشکل چیز ہے اس لیے بعض لوگ ہجرت کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے ان سے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے ہجرت کرو اور میری عبادت کرو۔ ہجرت کرنے میں دو طرح کی تکلیفیں پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے، اول موت کا خطرہ (کافروں کی طرف سے حملہ آور ہونے کا قوی احتمال) اور دوسرے بھوکے مرجانے کا خطرہ۔ انسان سوچتا ہے کہ یہاں اپنے گھر میں کمائی کرتا ہوں، بیٹے بھی کماتے ہیں، تجارت چالو ہے، اپنی کھیتی باڑی ہے، وطن سے باہر نکلتا ہوں تو کھانے کو کہاں سے ملے گا ؟
Top