Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے بندو میرے جو یقین لائے ہو میری زمین کشادہ ہے سو مجھ ہی کی بندگی کرو
خلاصہ تفسیر
اے میرے ایمان دار بندو (جب یہ لوگ غایت عداوت وعناد سے تم کو اقامت شرائع (اختیار دین پر ایذاء پہونچاتے ہیں تو یہاں رہنا کیا ضرور) میری زمین فراخ ہے، سو (اگر یہاں رہ کر عبادت نہیں کرسکتے تو اور کہیں چلے جاؤ اور وہاں جا کر) خالص میری ہی عبادت کرو (کیونکہ یہاں اہل شرک کا زور ہے، تو ایسی عبادت جو توحید محض پر مبنی ہو اور شرک سے خالی ہو، یہاں مشکل ہے، البتہ خدا کے ساتھ غیر خدا کی بھی عبادت ہو یہ ممکن ہے مگر وہ عبادت ہی نہیں اور اگر تم کو ہجرت میں احباب و اوطان کی مفارقت شاق معلوم ہو تو یہ سمجھ لو کہ ایک نہ ایک روز یہ تو ہونا ہی ہے، کیونکہ) ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا (ضرور) ہے (آخر اس وقت سب چھوٹیں گے اور) پھر تم سب کو ہمارے پاس آنا ہے (اور نافرمان ہو کر آنے میں خوف سزا کا ہے) اور (یہ مفارقت اگر ہماری رضا کے واسطے ہو تو ہمارے پاس پہنچنے کے بعد اس وعدہ کے مستحق ہوجاؤ اور وہ وعدہ یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے (جن پر عمل کرنا بعض اوقات ہجرت پر موقوف ہوتا ہے تو ایسے وقت میں ہجرت بھی کی) ہم ان کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دیں گے، جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان نیک) کام کرنے والوں کا کیا اچھا اجر ہے، جنہوں نے (واقع شدہ سختیوں پر جن میں ہجرت کی سختی بھی داخل ہوگئی) صبر کیا اور (دوسرے ملک یا شہر میں جا کر جو تکالیف کا اور گذارے کی مشکلات کا اندیشہ تھا اس میں) وہ اپنے رب پر توکل کیا کرتے تھے اور (اگر ہجرت میں تم کو یہ وسوسہ ہو کہ پردیس میں کھانے کو کہاں سے ملے گا تو یہ سمجھ لو کہ) بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے (یعنی جمع نہیں کرتے گو بعضے جمع بھی کرتے ہیں، مگر بہت سے نہیں بھی کرتے) اللہ ہی ان کو (مقدر) روزی پہنچاتا ہے اور تم کو بھی (مقدور روزی پہنچاتا ہے خواہ تم کہیں ہو پھر ایسا وسوسہ مت لاؤ، بلکہ دل قوی کر کے اللہ پر بھروسہ رکھو) اور (وہ بھرسہ کے لائق ہے کیونکہ) وہ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (اسی طرح دوسری صفات میں کامل ہے اور جو ایسا کامل الصفات ہو وہ ضرور بھروسہ کے قابل ہے) اور (توحید فی الالوہیت کا جو مبنی ہے یعنی توحید فی التخلیق وہ تو ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم ہے چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ (بھلا) وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے، تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہے پھر (جب توحید فی التخلیق کو مانتے ہیں تو توحید فی الالوہیت کے بارے میں) کدھر الٹے چلے جا رہے ہیں (اور جیسا خالق اللہ ہی ہے اسی طرح) اللہ ہی (رازق بھی ہے چنانچہ) وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اللہ ہی سب چیز کے حال سے واقف ہے (جیسی مصلحت دیکھتا ہے ویسی ہی روزی دیتا ہے غرض رازق وہی ٹھہرا، اس لئے رزق کا اندیشہ ہجرت سے مانع نہ ہونا چاہئے) اور (جیسا کہ تخلیق کائنات میں اللہ کی توحید ان کے نزدیک بھی مسلم ہے، اسی طرح کائنات کے باقی رکھنے اور ان کا نظام چلانے میں بھی توحید کو تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو بعد اس کے کہ خشک (ناقابل نبات) پڑی تھی ترو تازہ (قابل نبات) کردیا تو (جواب میں) وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ بھی اللہ ہی ہے آپ کہئے کہ الحمد اللہ (اتنا تو اقرار کیا جس سے توحید فی الالوہیت پر استدلال بھی بدیہی ہے، مگر یہ لوگ مانتے نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) ان میں اکثر سمجھتے بھی نہیں (نہ اس وجہ سے کہ عقل نہیں، بلکہ عقل سے کام نہیں لیتے اور غور نہیں کرتے، اس لئے بدیہی بھی خفی رہتا ہے۔)

معارف و مسائل
شروع سورت سے یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور توحید و رسالت سے مسلسل انکار اور حق اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹوں کا بیان تھا، مذکور الصدر آیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق کو شائع کرنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے، یعنی وہ وطن اور ملک چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور کیا جائے۔
ہجرت کے احکام اور اس کی راہ میں پیش آنے والے شکوک و شبہات کا ازالہ
اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ ، حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے، اس لئے کسی کا یہ عذر قابل سماعت نہیں کہ فلاں شہر یا فلاں ملک میں کفار غالب تھے، اس لئے ہم اللہ کی توحید اور اس کی عبادت سے مجبور ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس سر زمین کو جہاں وہ کفر و معصیت پر مجبور کئے جائیں اللہ کے لئے چھوڑ دیں اور کوئی ایسی جگہ تلاش کریں جہاں آزادی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرسکیں۔ اسی کا نام ہجرت ہے۔
وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانے میں دو قسم کے خطرات انسان کو عادة پیش آیا کرتے ہیں، جو اس کو ہجرت سے روکتے ہیں۔ پہلا خطرہ اپنی جان کا ہے کہ جب اس وطن کو چھوڑ کر کہیں جائیں گے تو یہاں کے کفار اور ظالم لوگ راہ میں حائل ہوں گے اور مقابلہ و مقاتلہ کے لئے آمادہ ہوں گے۔ نیز راستہ میں ممکن ہے کہ دوسرے کفار سے بھی مقابلہ کرنا پڑے جس میں جان کا خطرہ ہے۔ اس کا جواب اگلی آت میں یہ دیا گیا کہ
Top