Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں اور سچے ہیں، اور حکم ماننے والے ہیں، اور خرچ کرنے والے ہیں اور راتوں کے پچھلے حصوں میں مغفرت طلب کرنے والے ہیں۔
(اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَارِ ) اَلصَّابِرِیْنَ (صبر کرنے والے): اس صفت کو مقدم فرمایا کیونکہ صفت صبر ہی ایسی چیز ہے جس کا تمام نیکیوں میں دخل ہے جیسا کہ آیت کریمہ (وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) کی تفسیر میں عرض کیا گیا کہ صبر کی تین قسمیں ہیں اول نیکیوں پر جما رہنا دوسرے گناہوں کے چھوڑنے پر نفس کو لگائے رہنا اور گناہوں کے تقاضوں کو دبانا تیسرے تکلیفوں پر صبر کرنا۔ مومن بندہ کی زندگی میں ہر موقعہ پر اور ہر عبادت میں مالی ہو یا بدنی اس صفت کی ضرورت پڑتی ہے پھر فرمایا : وَالصَّادِقِیْنَ (سچے لوگ): سچائی بہت بڑی صفت ہے۔ ایمان میں سچائی ہو تو انسان منافق نہیں ہوتا۔ اقوال میں سچائی ہو تو انسان جھوٹ نہیں بولتا اعمال میں سچائی ہو تو اعمال کو اچھی طرح انجام دیتا ہے اور نیت میں سچائی ہو تو سب اعمال درست ہوتے ہیں۔ سورة زمر میں فرمایا (وَالَّذِیْ جَاء بالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) (اور جو شخص سچ لے کر آیا اور سچ کی تصدیق کی یہ لوگ تقویٰ والے ہیں) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سچ کو لازم پکڑ لو کیونکہ سچ نیکی کی راہ بتاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور انسان برابر سچ کو اختیار کرتا ہے اور اہتمام سے فکر کر کے سچ کو اختیار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق (بہت زیادہ سچا) لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم لوگ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گنہگاری کی راہ بتاتا ہے اور گنہگاری دوزخ کی طرف لے جاتی ہے اور انسان برابر جھوٹ اختیار کرتا ہے اور دھیان کرکے سوچ سوچ کر جھوٹ کو اختیار کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب (بہت زیادہ جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم) وَالْقَانِتِیْنَ (فرمانبر داری کرنے والے): یہ لفظ قنوت سے لیا گیا ہے۔ قنوت کے متعدد معنی ہیں ان میں سے ایک معنی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کے ہیں اس کے عموم میں ہر طرح کی فرمانبر داری اور تمام عبادات اور ترک منکرات داخل ہیں۔ وَالْمُنْفِقِیْنَ : پھر فرمایا والْمُنْفِقِیْنَ (خرچ کرنے والے) اس میں مال خرچ کرنے کی فضیلت ذکر فرمائی یعنی تقویٰ اختیار کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے ہیں، خرچ کرنے کا تعلق مالداری سے نہیں ہے آخرت میں ثواب ملنے کے جذبات سے ہے۔ جن کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت نہیں ہوتی مال کثیر ہوتے ہوئے بھی خرچ نہیں کرتے اور جن کے پیش نظر آخرت کا ثواب ہوتا ہے وہ تھوڑا مال ہوتے ہوئے بھی للہ فی اللہ خرچ کردیتے ہیں۔ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَار : پھر فرمایا (وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَارِ ) (اور پچھلی راتوں میں گناہوں کی مغفرت طلب کرنے والے ہیں) یہ بھی اہل تقویٰ کی خاص صفت ہے۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ قیام اللیل (نماز تہجد) کو لازم پکڑ لو کیونکہ تم سے پہلے جو صالحین تھے یہ ان کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمہارے رب کی نزدیکی کا سبب ہے اور گناہوں کا کفارہ کرنے والی ہے اور گناہوں سے روکنے والی ہے۔ (ترمذی) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اسے عطا کروں کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کردوں۔ (صحیح بخاری صفحہ 153: ج 1) رات کو اٹھنے کی فضیلت : حضرت عمرو بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب آخری رات کے حصے میں ہوتا ہے۔ سو اگر تجھ سے ہو سکے تو ان لوگوں میں سے ہوجا جو اس وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ (رواہ الترمذی) (اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَا اٰتَاھُمْ رَبُّہُمْ اِِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) ” بیشک جو لوگ تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ان کے رب نے جو انہیں عطا فرمایا اس کے لینے والے ہوں گے۔ بلاشبہ یہ لوگ اس سے پہلے اچھے کام کرنے والے تھے رات کو کم سوتے تھے اور راتوں کے پچھلے حصوں میں استغفار کرتے تھے۔ “
Top