Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 56
فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَاُعَذِّبُھُمْ : سوا نہیں عذاب دوں گا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کا مِّنْ : سے نّٰصِرِيْنَ : مددگار
سو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا پس ان کو سخت عذاب دوں گا، دنیا میں اور آخرت میں اور ان کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا
کافروں کے لیے وعید عذاب شدید اور اہل ایمان کے لیے اجر وثواب کا وعدہ دنیا میں مومن اور کافر سبھی زندہ رہتے ہیں اور کھاتے کماتے ہیں۔ یہ سب دنیاوی امور ہیں آخرت میں تو ایمان مدار نجات یافتہ ہوگا ایمان اور اعمال صالح کی بنیاد پر جنت ملے گی اور اس وقت اعمال کا پورا پورا بدلہ اللہ پاک کی طرف سے دے دیا جائے گا اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے دنیا میں بھی سزا ہے اور آخرت میں بھی، یہ سزا مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ جب مسلمان جہاد کرتے تھے (جواب بھی واجب ہے) اس وقت کافر ان کے ہاتھوں قتل ہوتے تھے قید ہوتے تھے غلام باندی بنائے جاتے تھے جزیہ دینے پر مجبور ہوتے تھے۔ اور اب بھی ان کے ملکوں میں تباہی آتی رہتی ہے۔ نئی بیماریاں زلزلے وغیرہ مصائب و آلام کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور اگر کہیں دنیاوی حال اچھا ہے تو وہ استدراج ہے اور مسلمانوں کے ملکوں میں جو کبھی اس طرح کی کوئی چیز آجاتی ہے۔ وہ کفارہ سیئات کا ذریعہ بنتی ہے۔ نصاریٰ کا دنیا میں یہودیوں پر فائق اور غالب رہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ آخرت میں نجات کے مستحق ہوں گے۔ کیونکہ وہاں کی نجات کا تعلق اس ایمان سے ہے جو اللہ کے ہاں معتبر ہے۔ نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس طرح نہیں مانتے جیسا انہوں نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ) اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی ایمان نہیں لاتے (ان کی تشریف آوری کی بشارت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی) اس لیے کافروں میں شمار ہیں اور کفر کی وجہ سے آخرت میں ان کو سخت اور دائمی عذاب ہوگا اور یہودی بھی کفر اختیار کیے ہوئے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایمان نہیں لائے اور سیدنا حضرت محمد ﷺ کی رسالت کو بھی نہیں مانتے لہٰذا وہ بھی آخرت میں عذاب دائمی کے مستحق ہیں۔ آخر میں فرمایا (ذٰلِکَ نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ مِنَ الْاٰیٰتِ ) کہ اے محمد یہ جو کچھ ہم پڑھ کر سناتے ہیں یہ ان آیات یعنی دلائل واضحہ میں سے ہے جو آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہیں ان چیزوں کو کوئی شخص نہیں جان سکتا جب تک کہ پرانی کتاب نہ پڑھی ہو یا کسی معلم سے علم حاصل نہ کیا ہو آپ کو یہ دونوں باتیں حاصل نہیں لہٰذا یہ ساری معلومات متعینہ طور پر وحی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوئیں ( وَ الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ ) اور ذکر حکیم یعنی قرآن محکم بھی ہم آپ کو سناتے ہیں جو باطل سے محفوظ ہے اور حکمتوں سے پر ہے۔
Top