Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
سو جو شخص ان کے بارے میں آپ سے جھگڑا کرے اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آگیا ہے تو آپ فرما دیجیے کہ آجاؤ ہم بلا لیں اپنے بیٹوں کو اور تم بلا لو اپنے بیٹوں کو اور ہم بلا لیں اپنی عورتوں کو اور تم بلا لو اپنی عورتوں کو اور ہم حاضر کردیں اپنی جانوں کو اور تم بھی حاضر ہوجاؤ اپنی جانوں کو لے کر پھر ہم سب مل کر خوب سچے دل سے اللہ سے دعا کریں اور لعنت بھیج دیں جھوٹوں پر
نصاریٰ کو دعوت مباہلہ : اللہ جل شانہٗ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا : (فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ ) (الآیۃ) اس میں دعوت مباہلہ کا ذکر ہے۔ مفسر ابن کثیر نے صفحہ 438: ج 1 میں محمد بن اسحاق بن یسار سے نقل کیا ہے کہ نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد جو ساٹھ آدمیوں پر مشتمل تھا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں چودہ اشخاص ان کے اشراف میں سے تھے جن کی طرف ہر معاملہ میں رجوع کیا جاتا تھا ان میں سے ایک شخص کو سید کہتے تھے جس کا نام ایھم تھا اور ایک شخص ابو حارثہ تھا اور بھی لوگ تھے ان میں عاقب ان کا امیر تھا اور صاحب رائے سمجھا جاتا تھا اسی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کی ہر رائے پر عمل کرتے تھے اور سید ان کا عالم تھا۔ ان کی مجلسوں اور محفلوں کا وہی ذمہ دار تھا اور ابو حارثہ ان کا پوپ تھا جو ان کی دینی تعلیم و تدریس کا ذمہ دار تھا بنی بکربن وائل کے قبیلے سے تھا اور عربی تھا۔ لیکن نصرانی ہوگیا تھا۔ رومیوں نے اس کی بڑی تعظیم کی اس کے لیے گرجا گھر بنا دیئے۔ اور اس کی طرح طرح سے خدمت کی۔ اس شخص کو رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کا علم تھا کتب سابقہ میں آپ کی جو صفات مذکور ہیں ان سے واقف تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری پر بھی نصرانیت پر مصر رہا۔ دنیاوی اکرام اور عزت و جاہ نے اس کو اسلام قبول کرنے سے باز رکھا۔ جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے اور مسجد ہی میں تشریف رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے بہت ہی بڑھیا کپڑے پہن رکھے تھے اور خوب صورت چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔ ان کی اپنی نماز کا وقت آگیا تو انہوں نے مسجد نبوی ہی میں مشرق کی طرف نماز پڑھ لی۔ ان میں سے ابو حارثہ عاقب اور سید نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی اور وہی اپنی شرکیہ باتیں پیش کرنے لگے کسی نے کہا عیسیٰ اللہ ہے کسی نے کہا ولد اللہ ہے کسی نے کہا ثلاث ثلاثہ (یعنی ایک معبود عیسیٰ ہے ایک اس کی والدہ اور ایک اللہ تعالیٰ ہے) ان لوگوں نے گفتگو میں یہ سوال کیا کہ اے محمد ﷺ عیسیٰ کا باپ کون تھا ؟ آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کے شروع سے لے کر اسی (80) سے کچھ اوپر آیات نازل فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس اللہ کی طرف سے جب تفصیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں وحی نازل ہوگئی اور ان سے مباہلہ کرنے کی دعوت کا حکم نازل ہوگیا تو آپ نے اس کے مطابق ان کو مباہلہ کی دعوت دی۔ مباہلہ کا طریقہ : دعوت یہ تھی کہ ہم اپنی اولاد اور عورتوں سمیت آجاتے ہیں تم بھی اپنی اولاد اور عورتوں اور اپنی جانوں کو لے کر حاضر ہوجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں دونوں فریق مل کر خوب سچے دل سے دعا کریں گے کہ جو بھی کوئی جھوٹا ہے اس پر لعنت ہوجائے، جب آنحضرت ﷺ نے مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ابو القاسم ﷺ ہمیں مہلت دیجیے ہم غور و فکر کر کے حاضر ہوں گے۔ نصاریٰ کا مباہلہ سے فرار : جب آپ کے پاس سے چلے گئے اور آپس میں تنہائی میں بیٹھے تو عبدالمسیح سے کہا کہ تیری کیا رائے ہے اس نے کہا کہ یہ تو تم نے سمجھ لیا کہ محمد نبی مرسل ہیں اور انہوں نے تمہارے صاحب (یعنی حضرت عیسیٰ ) کے بارے میں صاف صاف صحیح باتیں بتائی ہیں اور تمہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ جس کسی قوم نے کسی نبی سے کبھی کوئی مباہلہ کیا ہے تو کوئی چھوٹا بڑا ان میں باقی نہیں رہا۔ اگر تمہیں اپنا بیچ ناس کھونا ہے تو مباہلہ کرلو۔ اگر تمہیں اپنا دین نہیں چھوڑنا تو ان سے صلح کرلو اور اپنے شہروں کو واپس ہوجاؤ، مشورے کے بعد وہ بار گاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے اے ابو القاسم ﷺ ہمارے آپس میں یہ طے پایا ہے کہ ہم آپ سے مباہلہ نہ کریں آپ کو آپ کے دین پر چھوڑ دیں اور ہم اپنے دین پر رہتے ہوئے واپس لوٹ جائیں اور آپ اپنے آدمیوں سے ایک شخص کو بھیج دیں جو ہمارے درمیان ایسی چیزوں میں فیصلہ کر دے جن میں ہمارا مالیاتی سلسلہ میں اختلاف ہے آپ نے حضرت ابو عبیدۃ بن جراح کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ معالم التنزیل صفحہ 310: ج 1 میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے آیت بالا (نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَ کُمْ ) آخر تک نجران کے نصاریٰ کے سامنے پڑھی اور ان کو مباہلہ کی دعوت دی تو انہوں نے کل تک مہلت مانگی جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے آپ پہلے سے حضرت حسین کو گود میں لیے ہوئے اور حضرت حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لا چکے تھے حضرت فاطمہ ؓ پیچھے پیچھے تشریف لا رہی تھیں اور حضرت علی ؓ ان کے پیچھے تھے آپ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا یہ منظر دیکھ کر نصاریٰ نجران کا پوپ کہنے لگا کہ اے نصرانیو ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر اللہ سے یہ سوال کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو ضرور ہٹا دے گا لہٰذا تم مباہلہ نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا یہ سن کر کہنے لگے کہ اے ابو القاسم ﷺ ہماری رائے یہ ہے کہ ہم مباہلہ نہ کریں اور آپ کو آپ کے دین پر چھوڑ دیں اور ہم اپنے دین پر رہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں مباہلہ سے انکار ہے تو اسلام قبول کرو اسلام قبول کرنے پر تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور تمہاری وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مسلمانوں کی ہیں انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اس پر آپ نے فرمایا کہ بس ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی وہ کہنے لگے کہ ہمیں جنگ کی طاقت نہیں ہم آپ سے صلح کرلیتے ہیں۔
Top