Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 15
وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ١ؕ وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْئُوْلًا
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا : حالانکہ وہ عہد کرچکے تھے اللّٰهَ : اللہ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے لَا : نہ يُوَلُّوْنَ : پھیریں گے الْاَدْبَارَ ۭ : پیٹھ وَكَانَ : اور ہے عَهْدُ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ مَسْئُوْلًا : پوچھا جانے والا
اور اس سے پہلے انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ ہم پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے جو عہد کیا اس کی باز پرس ہوگی،
چوتھی آیت میں بھی انہیں لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے گھروں کے خالی ہونے کا بہانہ کرکے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اجازت طلب کی تھی، ارشاد فرمایا : (وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ ) (الآیۃ) یعنی ان لوگوں نے اس سے پہلے عہد کیا تھا کہ پشت پھیر کر نہ جائیں گے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بنو حارثہ کا ذکر ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے قبیلہ بنو سلمہ مراد ہے، یہ لوگ غزوہ احد کے موقع پر بزدلی دکھا چکے تھے پھر توبہ کرکے شریک ہوگئے تھے اور خندق کا واقعہ پیش آنے سے پہلے عہد کیا تھا کہ راہ فرار اختیار نہ کریں گے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں ان منافقوں کا ذکر ہے جو غزوۂ بدر کی شرکت سے رہ گئے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے وہاں مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور کافروں کو بری طرح شکست دی تو یہ کہنے لگے افسوس ہم شریک نہ ہوئے، اگر ہم شریک ہوتے تو یوں کرتب دکھاتے اور ایسا ویسا کرتے، آئندہ جب کوئی جہاد کا موقع ہوگا تو ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے، جب غزوۂ خندق کا موقع آیا تو ان کے سارے دعوے اور معاہدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور فرار کی راہیں اختیار کرنے لگے، (وَکَانَ عَھْدُ اللّٰہِ مَسْءُوْلًا) (اور اللہ سے جو عہد کیا جاتا ہے اس کی باز پرس ہوگی) عہد کی خلاف ورزی اور عہد شکنی کرکے سزا کے مستحق ہوچکے ہیں۔
Top