Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 16
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
قُلْ : فرمادیں لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ : تمہیں ہرگز نفع نہ دے گا الْفِرَارُ : فرار اِنْ : اگر فَرَرْتُمْ : تم بھاگے مِّنَ الْمَوْتِ : موت سے اَوِ : یا الْقَتْلِ : قتل وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا تُمَتَّعُوْنَ : نہ فائدہ دیے جاؤ گے اِلَّا قَلِيْلًا : مگر (صرف) تھوڑا
آپ فرما دیجیے اگر تم موت سے یا قتل سے بھاگو گے تو یہ بھاگنا تمہیں نفع نہ دے گا اور اس وقت بس تھوڑے ہی دن جیو گے۔
پانچویں اور چھٹی آیت میں راہ فرار اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر تم موت سے یا قتل کے ڈر سے بھاگ گئے تو تمہارا یہ بھاگنا تمہیں نفع نہ دے گا، اگر بھاگ گئے تو کتنا جیو گے ؟ اجل مقررہ کے مطابق موت تو آہی جائے گی اور عمر کا جو بقیہ حصہ ہے اس سے بھی زیادہ نفع حاصل نہیں کرسکتے، بھاگ کر عمر نہیں بڑھ سکتی کیونکہ اس کا وقت مقرر ہے۔ مزید فرمایا کہ ہر چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے اگر تم بھاگ گئے اور جہاں پہنچے وہاں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہلاک فرما دیا تو تمہیں اللہ سے کون بچا سکتا ہے ؟ اور وہ تم پر اپنا فضل فرمائے مثلاً تمہیں زندہ رکھے جو کہ ایک دنیاوی رحمت ہے تو اسے اس سے کون روک سکتا ہے ؟ ساتویں اور آٹھویں آیت میں بھی ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو دوسروں کو شرکت جہاد سے روک رہے تھے اور مسلمانوں کے حق میں اپنے قول اور فعل سے برا کردار ادا کر رہے تھے، ارشاد فرمایا اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کو جنگ میں شریک ہونے سے روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آجاؤ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ایک مخلص مسلمان غزوۂ خندق کے موقع پر اپنے سگے بھائی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھنا ہوا گوشت کھا رہا ہے اور اس کے پاس نبیذ (کھجوروں کا میٹھا پانی) پڑا ہے، یہ شخص منافق تھا، مخلص مسلمان (اس کا بھائی) جو اس کے پاس سے گزر رہا تھا، نے اس سے کہا تو یہاں ہے ؟ اور رسول اللہ ﷺ نیزوں اور تلواروں کے درمیان ہیں، اس پر بھنا ہوا گوشت کھانے والے شخص نے کہا کہ تو بھی میرے پاس آجا کہ اب تو تم لوگ ایسے گھیرے میں آگئے ہو کہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، مخلص مسلمان نے کہا کہ تو جھوٹا ہے اللہ کی قسم میں تیری بات کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو کردوں گا، یہ صاحب امام الانبیاء ﷺ کی خدمت عالی میں پہنچے تو دیکھا کہ جبریل (علیہ السلام) یہ آیت کریمہ (قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ ) لے کر نازل ہوچکے ہیں۔ اور صاحب معالم التنزیل نے (جلد 3 صفحہ 518) لکھا ہے کہ یہودیوں نے منافقوں کو کہلا بھیجا کہ تم لوگ ابو سفیان اور اس کی جماعت اور دوستوں کے ہاتھ پر کیوں اپنی جان کو تباہ کر رہے ہو، اگر اس مرتبہ انہوں نے تم پر قابو پالیا تو تم میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے، ہمیں تم پر ترس آ رہا ہے تم ہمارے بھائی ہو اور پڑوسی ہو ہمارے پاس آجاؤ، (اس صورت میں اخوان سے برادر نسبتی نہیں بلکہ برادر وطنی مراد ہوں گے) یہود کی باتوں سے متاثر ہو کر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مومنین و مخلصین کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں جنگ کرنے سے روکنے لگے اور خوف زدہ کرنے لگے کہ دیکھو اگر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے تم پر قابو پالیا تو تم میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے، تمہیں محمد (e) سے کس خیر کی امید ہے اس کی جنگ کا تو یہ حاصل ہے کہ ہم سب یہیں مقتول ہوجائیں گے، چلو ہم اپنے یہودی بھائیوں کے پاس چلے چلیں، منافقوں کی یہ بات سن کر اہل ایمان کا ایمان اور مضبوط ہوگیا اور ان میں ثواب کی امید اور زیادہ پکی ہوگئی۔ (وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور یہ لوگ یعنی منافقین لڑائی کے موقع پر جو حاضر ہوجاتے ہیں ان کا یہ حاضر ہونا بس ذرا سا نام کرنے کو ہے)
Top