Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلٌ : رسول مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور موسیٰ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں۔
آیت نمبر : 104۔ تا 112 حقیق علی یعنی مجھ پر واجب ہے۔ اور جنہوں نے علی ان لا پڑھا ہے تو معنی یہ ہوگا حریص علی الاقوال ( وہ اس پر حریص ہے کہ میں نہ کہوں) اور حضرت عبداللہ کی قراءت میں حقیق الا اقول ہے یعنی اس میں علی موجود نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ علی بمعنی با ہے (زادالمسیر، جلد 2، صفحہ 182) ، یعنی حقیق بالا اقول اور اسی طرح حضرت ابی اور اعمش کی قراءت میں بالا اقول ہے۔ جیسے تو کہتا ہے : رمیت بالقوس وعلی القوس۔ پس اس بنا پر حقیق بمعنی محقوق ( ثابت شدہ) ہوگا۔ اور آیت : فارسل معی بنی اسراء یل کا معنی ہے تو انہیں چھوڑ دے۔ ( کیونکہ) وہ انہیں انتہائی مشقت آمیز کاموں میں لگائے رکھتا تھا۔ فالقی عصاہ۔ اسے اجسام اور معانی دونوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے، بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور الثعبان سے مراد اژدہا ( بہت بڑا سانپ) ہے اور یہی تمام سانپوں سے بڑا اور شدید ہوتا ہے۔ مبین یعنی ایسا سانپ جس میں کوئی التباس اور ابہام نہ تھا۔ آیت : ونزع یدہ اور آپ نے اپنا دست مبارک نکالا اور اسے ظاہر کیا۔ کہا گیا کہ اپنے گریبان سے یا اپنے پہلو سے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : آیت : وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء ( النمل : 12) یعنی بغیر برص (کی بیماری) کے وہ سفید اور روشن نکلے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت زیادہ گندمی رنگ کے تھے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ دوبارہ اپنے گریبان میں داخل کیا تو وہ اپنی پہلی رنگت کی طرف واپس لوٹ آیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : آپ کے ہاتھ میں انتا نور اور چمک تھی کہ اس کے ساتھ زمین و آسمان کے مابین ہر شی روشن ہوگئی اور چمکنے لگی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ کا ہاتھ اتنا سفید نکلتا تھا جیسے برف ظاہر ہوتی ہے اور جب آپ اسے واپس لوٹاتے تو وہ سارے بدن کی رنگت پر واپس لوٹ آگا۔ اور علیم کا معنی ہے سحر اور جادو جاننے والا۔ آیت : من ارضکم یعنی تمہارے ملک سے اسے قبطیوں کے گروہ، کیونکہ اسے تم پر بنی اسرائیل مقدم ہیں۔ آیت : فماذا تامرون یعنی فرعون نے کہا : اب تم کیا مشورہ دیتے ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ان رئیسوں کا قول ہے (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 518) ۔ یعنی انہوں نے اکیلے فرعون کو کہا : آیت : فاذا تامرون جیسے جابر حکمرانوں اور روساء کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ ما ترون فی کذا ( تم اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہو) ۔ اور یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ انہوں نے یہ قول فرعون اور اس کے ساتھیوں کو کہا ہو۔ اس میں ما محل رفع میں ہے۔ اس بنا پر کہ ذا، بمعنی الذی ہو اور اگر ذا اور ما ایک ہی شی ہوں تو پھر ما محل نصب میں ہوگا۔ آیت : قالوا ارجہ اہل مدینہ، عاصم اور کسائی نے بغیر ہمزہ کے قراءت کی ہے۔ مگر ورش اور کسائی نے ہا کے کسرہ میں اشباع کیا ہے۔ اور ابو عمرو نے ہمزہ کو ساکن اور ہا کو مضموم پڑھا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ کہا جاتا ہے : ارجاتہ وارجیتہ یعنی میں نے اسے مہلت دی۔ اسی طرح ابن کثیر، ابن محیصن اور ہشام نے بھی پڑھا ہے، مگر انہوں نے ہا کے ضمہ میں اشباع کیا ہے۔ اور تمام اہل کوفہ نے ارجہ ہا کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ عرب کی لغت ہے وہ وصل کلام میں ہا کنایہ پر وقف کرتے ہیں جب کہ اس کا ماقبل متحرک ہو، اسی طرح ھذہ طلحۃ قد اقبلت ہے۔ لیکن بصریوں نے اس کا انکار کیا ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : ارجہ کا معنی ہے تم اسے روک دو (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 245 ) ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا معنی ہے : تم اسے مہلت دو (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 245 ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ارجہ یہ رجا یرجو سے ماخوذ ہے۔ یعنی اسے لالچ دو اور اسے امید دلا کر چھوڑ دو ۔ اسے نحاس نے محمد بن زید سے بیان کیا ہے اور ہا کا کسرہ ما قبل کی اتباع میں ہے اوعر اصل کی بنا پر اسے ضمہ دینا جائز ہے اور اسے سکون دینا غلطی ہے یہ جائز نہیں مگر شعر میں بطور شاذ ہو سکتا ہے۔ واخاہ اس کا عطف ہا پر ہے۔ حشرین یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ یاتوک یہ حالت جزم میں ہے، کیونکہ یہ جواب امر ہے اسی لیے اس کے آخر سے نون اعرابی محذوف ہے۔ سوائے حضرت عاصم کے تمام اہل کوفہ نے بکل سحر قراءت کی ہے۔ اور باقی تمام لوگوں نے ساحر پڑھا ہے۔ اور یہ دونوں باہم متقارب ہیں مگر فعال ( سحار) میں مبالغہ زیادہ ہے۔
Top