Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
آپ کے لئے (اے پیغمبر ! ) اس کے بعد اور عورتیں حلال نہیں اور نہ ہی یہ بات (جائز ہے) کہ آپ ان کی جگہ اور بیویاں لے آئیں اگرچہ آپ کو پسند ہو ان کا حسن مگر وہ لونڈیاں جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے1
105 حضور ﷺ کے نکاح سے متعلق بعض پابندیوں کا ذکر وبیان : یعنی نہ تو آپ ﷺ کیلئے ان ازواج مطہرات پر کسی اور کا اضافہ کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے کی۔ کہ جب انہوں نے دنیا اور اس کی زینت کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول ہی کو اختیار کیا تو اب آپ ﷺ کو بھی ان سے نظر نہیں ہٹانی چاہیئے ۔ " اَما من بعد ھؤلاء التسع فلا یجوز لک العشرۃ فما فوقہا " ۔ (الجامع : ج 2 ص 172) ۔ " من بعد ہؤلاء التسع الّٰتِی فی عصمتک " ۔ (صفوۃ : ج 2 ص 532) ۔ قال ابن عباس ؓ حبسہ اللّٰہ تعالیٰ علیہن کما حبہن علیہ ۔ (المراغی وغیرہ) ۔ روایات سے ثابت ہے کہ بعد میں یہ آیت کریمہ منسوخ ہوگئی اور آنحضرت ﷺ کو اس کی اجازت مل گئی کہ آپ جتنی شادیاں چاہیں کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے مسند احمد، سنن ترمذی اور سنن نسائی وغیرہ میں مروی ہے۔ مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے ان نو ازواج مطہرات کے بعد کوئی شادی نہ فرمائی۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ سو اس طرح اس میں بھی آپ ﷺ کے کمال اور عظمت شان کا ایک اور ثبوت اور نمونہ ملتا ہے کہ اباحت و اجازت کے باوجود آپ ﷺ نے ایسے نہیں کیا ۔ صلوات اللّہِ وسلامُہ علیہ ما تبقٰی ہٰذہ الأسطر والکلمات ۔ اور بعض نے کہا کہ من بعد سے مراد ہے کہ ان مذکورہ بالا چار قسم کی عورتوں کے بعد اور کوئی عورت جائز نہیں ۔ وعن بعض معناہ لا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِن بَعْدِ ہٰذِہ الاجناس الاربعۃ الَّتی مرَّ ذکرہا ۔ (جامع البیان، القرطبی وغیرہ) ۔ اور ابن کثیر نے تو پورے ایک گروہ کی یہ بات نقل کی ہے کہ ان مذکورہ بالا خواتین کے سوا دوسری اقسام کی جو خواتین ہیں وہ تمہارے لیے جائز نہیں۔ اور اس گروہ میں حضرت ابی بن کعب ؓ ، مجاہد، عکرمہ، ضحاک، ابورزین، ابوصالح، قتادہ اور حضرت حسن جیسے اکابر مفسرین شامل ہیں۔ سو حضور ﷺ کیلئے نکاح کے سلسلے میں ایک خاص دائرئہ مخصوص فرما دیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر آیت نمبر 105 میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اس سے باہر آپ کوئی نکاح نہیں فرما سکتے۔ اور یہ کہ آپکو اس کی اجازت بھی نہیں کہ آپ ﷺ اپنی ازواج میں سے کسی کو الگ کرکے اس کی جگہ کوئی دوسری بیوی لے آئیں اگرچہ اس کا حسن و جمال آپ ﷺ کو کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ اس کے بعد صرف ملک یمین کی اجازت باقی رہ گئی۔ چناچہ اسی کے تحت حضرت ماریہ قبطیہ ؓ آپ ﷺ کے قبضے میں آئیں جن کے بطن سے حضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم متولد ہوئے۔ بہرکیف اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کے لیے نکاح سے متعلق بعض خاص پابندیوں کا ذکر فرمایا گیا۔ 106 اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے : پس ہمیشہ خیال رہے کہ اس وحدہ لاشریک کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے اور اس کی رضا کی فکر ہمیشہ اور ہر حال میں رہے کہ اس کی رضا ہی اصل مقصود ہے ۔ مالک ! ہمیشہ اپنا بنالے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر کوئی مسؤل اور جواب دہ ہے۔ اور جو جتنا بڑا ہوگا اتنی ہی اس کی مسؤلیت و جوابدہی اور ذمہ داری بڑی اور زیادہ اہم ہوگی۔ سو اس اعتبار سے یہ امر ضروری ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مواخذے سے پہلے ۔ والعیاذ بہ جل و علا ۔ انسان اپنا محاسبہ خود کرے اور اس یقین و احساس اور علم وشعور کی بنا پر کرے کہ اس کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ اور اس کے عمل کی کوئی بھی شکل و صورت اس وحدہ لاشریک کی نگاہوں سے اوجھل اور مخفی نہیں ہوسکتی۔ سو آزادی اور پابندی پر جو حضور ﷺ کیلئے اوپر کی آیات کریمات میں بیان فرمائی گئی اگرچہ تعداد کے بارے میں آپ ﷺ کو چار کی قید سے آزاد کردیا گیا لیکن دوسری طرف آپ ﷺ پر نکاح اور طلاق دونوں ہی کے سلسلے میں جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ دوسرے عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ سخت ہیں۔ چناچہ ایک عام مسلمان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ چار کی حد کو ملحوظ رکھتے ہوئے محرمان کے دائرے سے باہر جس عورت سے چاہے نکاح کرے اور اپنی منکوحات میں سے جس کو چاہے طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی دوسری بیوی اپنی پسند کے مطابق نکاح میں لے آئے۔ مگر حضور ﷺ کو یہ آزادی حاصل نہیں تھی جیسا کہ اوپر گزرا کہ آپ ﷺ صرف تین قسم کی عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں اور بس۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری بات اس بارے میں یہ ہے کہ آپ ﷺ محض پسند اور ناپسند کی بنا پر اپنی ازواج میں کوئی رد و بدل نہیں کرسکتے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی من تبعہ باحسان الی یوم الدین -
Top