Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
نہ اس کے بعد آپ کے لیے اور عورتیں حلال ہیں اور نہ یہ کہ ان کو بدل کر اور عورتیں کرلو، گو آپ کو ان کی صورت بھلی معلوم ہو، مگر آپ کے ہاتھ کا مال (لونڈیاں درست ہیں) اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
دوسرا حکم : لایحل لک النساء من بعد یہ حضرت ﷺ کو دوسرا حکم ہے کہ آپ کو اور کوئی عورت حلال نہیں۔ مفسرین کے اس کی تفسیر میں چند اقوال ہیں۔ ابن عباس ؓ و مجاہد و ضحاک و قتادہ و حسن و ابن سیرین کہتے ہیں کہ حضرت ﷺ کو ان موجودہ نو بیویوں کے سواء جو آپ کے پاس تھیں جنہوں نے اللہ اور رسول اور دار آخرت کو اختیار کیا تھا اور بیویوں سے نکاح کرنا منع ہوگیا تھا، ان کی اس نیکی کے بدلے میں اور وہ نو بیویاں یہ تھیں۔ عائشہ، حفصہ بنت عمر، اُم حبیبہ بنت ابی سفیان، سودہ بنت زمعہ ‘ اُم سلمہ بنت ابی امیہ، صفیہ بنت حی بن اخطب، جو خیبر کی رئیس یہودی کی بیٹی تھیں۔ میمونہ بنت الحارث ہلالیہ، زینب بنت جحش اسدیہ، جویریہ بنت حارثہ مصطلقیہ، ؓ حضرت ﷺ کی وفات تک یہی موجود رہیں۔ ان کے بعد اور کی اجازت تو درکنار ان کی جگہ اور عورت کا قائم کرنا ممنوع تھا کہ ایک کو طلاق دے کر اس کی جگہ اور دوسری کو لاویں اور نو کے عدد کو پورا رکھیں۔ کما قال ولا ان تبدل بہن من ازواج ولو اعجبک حسنہن مگر لونڈی رکھنے کی اجازت تھی۔ کما قال الا ما ملکت یمینک مگر وہ جو تیرے قبضہ میں لونڈی آجاوے۔ یہ آیت محکمہ ہے اسی پر اخیر تک حضرت رسول کریم (علیہ السلام) کا عمل درآمد رہا اور اس کے بعد ایک لونڈی آپ کے پاس آئی جس کا نام ماریہ تھا۔ یہ مقوقش بادشاہ مصر نے ہدیۃً آپ کی خدمت میں بھیجی تھی اس سے ابراہیم پیدا ہوئے تھے۔ آٹھویں سال ہجری میں ذی الحجہ کے مہینہ میں جو شیر خوارگی کے زمانہ میں انتقال کرگئے، انہی کی وفات پر حضرت ﷺ نے فرمایا تھا۔ وانی بفر اقک یا ابراھیم لمحزون کہ میں تیری جدائی سے اے ابراہیم غمگین ہوں۔ بعض علماء اس تقدیر پر اس آیت کو منسوخ کہتے ہیں۔ سنت سے اور آیت ترجی من تشاء سے چناچہ احمد و ابو دائود و ترمذی و نسائی نے عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ آپ کو اجازت عام ہوگئی تھی اور ابی بن کعب و عکرمہ ابو رزین وغیرہ کہتے ہیں کہ النساء سے مراد وہ نو بیویاں نہیں بلکہ وہ چاروں اقسام جو پہلے مذکور ہوئے ان کے سوا اور کسی سے آپ کو نکاح کی ممانعت تھی اور تعداد اور تبدل میں آپ مختار تھے اوراقسام اربعہ ہی کے تبدل سے منع کئے گئے تھے اور انہی کی تائید کرتا ہے وہ قول کہ النساء سے مراد کتابیات و مشرکات ہیں کہ آپ کو شرک اور اہل کتاب یعنی غیر مذہب والی عورتیں درست نہیں، ہاں غیر مذہب والی لونڈیوں کا مضائقہ نہیں کس لیے کہ ام المومنین ہونے کا شرف مسلمان عورت ہی کو ہے اور یہی قوی ہے کس لیے کہ مدرسہ دینیہ کے لائق کافر نہیں ان کو نکاح میں لانے سے کیا فائدہ ؟ اس صورت میں آیت کو منسوخ کہنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں۔ وکان اللہ علی کل شیئٍ رقیبا اللہ ہر شے پر محافظ ہے، اس میں اشارہ ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے جو کام کرو اس بات کا خیال رکھو۔
Top