Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
بلاشبہ ہم نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی سو انہوں نے اس کی ذمہ داری سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اپنے ذمہ لے لیا، بیشک وہ ظلوم ہے جہول ہے
آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں نے بار امانت اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اسے اٹھالیا یہ دو آیات کا ترجمہ ہے، پہلی آیت میں امانت سپرد کرنے کا اور دوسری آیت میں نافرمانوں کے لیے عذاب دینے کا اور اہل ایمان پر مہربانی فرمانے کا ذکر ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ہم نے آسمانوں پر اور زمینوں پر اور پہاڑوں پر امانت پیش کی اور انہوں نے اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے انسان نے اس کو اٹھالیا۔ اس میں امانت سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ اس سے حکم کی فرمانبرداری کرنا یعنی فرائض کا نجام دینا مراد ہے، آسمانوں سے اور زمین سے اور پہاڑوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم امانت کو قبول کرو یعنی احکام کی فرمانبرداری کی ذمہ داری کا اقرار کرو اور ان کی ادائیگی کا بوجھ اٹھاؤ تو ان چیزوں نے کہا کہ اگر ہم ذمہ داری کو برداشت کرلیں اور احکام پر عمل پیرا ہونے کا وعدہ کرلیں تو اس کا انجام کیا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اچھے عمل کرو گے تو اس کا اچھا اجر ملے گا اور اگر نافرمانی کرو گے تو عذاب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں نہ ہمیں ثواب چاہیے نہ عذاب میں مبتلا ہونے کو تیار ہیں، (تشریعی طور پر اوامر اور احکام کا بوجھ اٹھانا ہمارے بس کا روگ نہیں ہاں ہم تکوینی طور پر مسخر ہیں، آپ کے حکم کے مطابق رہیں گے، اس میں نہ مخالفت کا اندیشہ ہے اور ثواب بھی نہیں عذاب بھی نہیں، ہمیں بےثواب رہنا منظور ہے عذاب کی برداشت نہیں) ان پر خوف اور خشیت کا ایسا غلبہ ہوا کہ عذاب کے ڈر سے ثواب چھوڑنے پر بھی آمادہ ہوگئے۔ ان چیزوں پر جو اللہ تعالیٰ نے امانت پیش فرمائی تھی وہ بطور تخییر کے تھی یعنی اختیار دیا گیا تھا کہ چاہو تو اس کو اپنے ذمہ لے لو چاہو تو نہ لو، لہٰذا انہوں نے تخییر سے فائدہ اٹھایا اور تحمل امانت سے انکار کردیا۔ اگر کوئی شخص یہ سوال اٹھائے کہ آسمان و زمین اور پہاڑ تو جمادات ہیں ان سے سوال و جواب کیسے ہوا ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ہمارے نزدیک بےفہم ہیں خالق اور مالک سے جو ان کا تعلق ہے وہ ادراک اور سمجھ کے ساتھ ہے، جیسا کہ سورة الحج میں فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ) (اے مخاطب ! کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ کے سامنے سب عاجزی کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی بھی، اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہوگیا اور جس کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ) سورۃ حٰمٓ السجدہ میں فرمایا (ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِءْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِءْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَاءِعِیْنَ ) (پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں تھا، سو اس سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی سے، دونوں نے عرض کیا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ ) سورۃ البقرہ میں پتھروں کے بارے میں فرمایا (وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ) (اور ان میں بعض وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں۔ ) اصل بات یہ ہے کہ پتھروں میں اور دوسری جمادات میں ہمارے خیال میں ادراک اور شعور نہیں ہے کیونکہ وہ ہم سے بات نہیں کرتے اور ہمیں وہ احوال معلوم نہیں جو ان پر گزرتے ہیں، اور ان کا اپنے خالق سے مخلوق اور مملوک اور عبادت گزار ہونے کا جو تعلق ہے انسان اس سے واقف نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ احد ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (جلد 2: ص 858) حضرت جابر بن سمرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے میں اسے پہچانتا ہوں جن دنوں میں میری بعثت ہوئی وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ (صحیح مسلم جلد 2 : ص 245) امانت کی تشریح اور توضیح و تفصیل : جب انسان پر امانت پیش کی گئی اور احکام الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری سونپی گئی تو انسان نے اسے قبول کرلیا اور برداشت کرلیا اور یہ مان لیا کہ میں احکام الٰہیہ پر عمل کروں گا۔ فرائض کی پابندی کروں گا واجبات ادا کروں گا۔ (وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ) میں الْاِنْسَانُ سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین کے بیان کے مطابق یہ امانت کی پیشی حضرت آدم (علیہ السلام) پر ہوئی تھی جذبہ ثواب میں آکر انہوں نے قبول کرلیا معصیت کے عقاب کی طرف گویا خاص دھیان نہیں دیا اور تکوینی طور پر بھی انہیں قبول کرنا تھا کیونکہ انہیں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا۔ یہ امانت کی پیشی کب ہوئی ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ بھی یوم المیثاق میں ہوا جس کا ذکر آیت کریمہ (وَاِذْ اَخَذَرَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَم) میں مذکور ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ یوم المیثاق سے پہلے کا ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں پہلے شرمگاہ پیدا فرمائی اور فرمایا کہ یہ امانت ہے اور تیرے پاس ودیعت رکھی جا رہی ہے اسے ضائع مت کرنا صرف حلال جگہ استعمال کرنا، اگر تو نے اس کی حفاظت کی تو میں تیری حفاظت کروں گا (اس کے بعد فرمایا) لہٰذا شرمگاہ امانت ہے، کان امانت ہیں، آنکھیں امانت ہیں، زبان امانت ہے، پیٹ امانت ہے، ہاتھ امانت ہیں، پاؤں امانت ہیں یعنی ان چیزوں سے متعلق جو احکام دئیے گئے ہیں ان کی خلاف ورزی خیانت ہے اور انہیں احکام الٰہیہ کے مطابق استعمال کرنا ادائے امانت ہے۔ (روح المعانی جلد 22: ص 96 تا 98) آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لاَ تَخُوْنُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا اَمٰنٰتِکُمْ ) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا (لا تخونوا اللّٰہَ بترک فرائضہ والرسول بترک سنتہ) یعنی فرائض کو چھوڑ کر اللہ کی خیانت نہ کرو اور سنتوں کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خیانت نہ کرو۔ (در منثور جلد 3: ص 178) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی خیانت کرنے کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا (وَتَخُوْنُوْا اَمٰنٰتِکُمْ ) اور آپس میں اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو، چونکہ امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور ہر طرح کی امانت میں خیانت کرنے کی ممانعت ہے اس لیے ہر خیانت سے نہایت اہتمام کے ساتھ پرہیز کرنا لازم ہے۔ مالی خیانت کو تو سبھی جانتے ہیں مثلاً کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھے اور وہ اس کو کھاجائے یا استعمال کرے یا کم کردے یا دو شریک آپس میں خیانت کرلیں جو شخص قرض دے کر یا کسی بھی طرح اپنا مال دے کر بھل جائے، اس کا حق رکھ لیں وغیرہ وغیرہ، یہ سب خیانتیں ہیں، اور ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کس کا حق مارا ہے اور کس کی خیانت کی ہے فکر آخرت اور اللہ کا ڈر ہو تو انسان خیانت سے بچ سکتا ہے ورنہ دنیاوی نفع کو دیکھ کر بڑے بڑے دیانتداری کے دعویدار اس مسئلہ میں کچے پڑجاتے ہیں، ہر شخص اپنے متعلقہ احکام میں دیانتدار ہے، چھوٹے بڑے حکام اور ملوک رؤساء اور وزراء امانتدار ہیں، انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے مطابق پوری کریں کسی بھی معاملے میں عوام کی خیانت نہ کریں۔ اسی طرح بائع اور مشتری اور سفر کے ساتھی، پڑوسی، میاں بیوی، ماں باپ اور اولاد سب ایک دوسرے کے مال کے اور دیگر متعلقہ امور کے امانتدار ہیں، جو بھی کوئی کسی کی خیانت کرے گا گنہگار ہوگا اور میدان آخرت میں پکڑا جائے گا، مالیات کے علاوہ دیگر امور میں بھی خیانت ہوتی ہے جن کا ذکر احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) (بےشک اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں دے دیا کرو) اور سورة بقرہ میں فرمایا ہے (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ) (سو اگر تم میں سے ایک شخص دوسرے شخص پر اعتماد کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے وہ دوسرے کی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے) سورة معارج میں نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ ) (اور وہ لوگ جو اپنی امانتیں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ ) حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا ہو اور یوں نہ فرمایا ہو (لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَلَہٗ ) (رواہ البیھقی فی شعب الایمان) (اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں۔ ) مومن کا کام یہ ہے کہ پوری طرح امانت دار رہے، اللہ تعالیٰ کے فرائض اور واجبات کو بھی ادا کرے، سنتوں کا بھی اہتمام رکھے، بندوں کے حقوق بھی ادا کرے اور عہد کی بھی پابندی کرے۔ امانتوں کی کچھ تفصیل ہم نے سورة نساء کی آیت (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) کے ذیل میں بیان کردی ہے۔ (انوار البیان جلد اول) اور مستقل ایک رسالہ بھی ” امانت و خیانت “ کے عنوان سے لکھ دیا ہے اس کو ملاحظہ کرلیا جائے۔ (اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً ) (بیشک انسان ظلوم ہے جہول ہے) ظلوم کا معنی ہے ظلم کرنے والا۔ اور جہول معنی ہے ” نادان “۔
Top