Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 73
لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق مردوں وَالْمُنٰفِقٰتِ : اور منافق عورتوں وَالْمُشْرِكِيْنَ : اور مشرک مردوں وَالْمُشْرِكٰتِ : اور مشرک عورتوں وَيَتُوْبَ : اور توبہ قبول کرے اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ : اور مومن عورتوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تاکہ اللہ منافقوں کو اور منافقات کو اور مشرکوں کو اور مشرکات کو سزا دے اور مومنین اور مومنات پر توجہ فرمائے اور اللہ غفور ہے رحیم ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ظلوم کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔ اور جہول کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جو امانت کی ادائیگی کا بوجھ اٹھایا وہ اس کے انجام کو نہیں جانتا تھا۔ یہ افراد کے اعتبار سے فرمایا کیونکہ انسانوں میں صالح بھی ہیں، علماء بھی ہیں عارفین بھی ہیں۔ اسی لیے مجموعہ افراد کا انجام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ ) (تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں کو اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو) (وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ) (اور تاکہ رحمت کے ساتھ اللہ متوجہ ہو مومن مردوں اور مومن عورتوں پر) یعنی انسان نے امانت کے بوجھ کو اٹھالیا، پھر اس ذمہ داری کو نباہنے والے بھی ہوئے اور خلاف ورزی کرنے والے بھی ہوئے جس کا انجام یہ ہوا کہ منافقوں اور مشرکوں کو عذاب ہو (اس میں (اَلْکَافِرِیْنَ وَالْکَافِرَاتِ ) کا ذکر نہیں ہے کیونکہ جب ان کافروں کا انجام عذاب ہے جو منافق ہیں یعنی زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے انکاری ہیں تو جو لوگ کھلے کافر ہوں گے وہ بطریق اولیٰ مستحق عذاب ہوں گے) اور ایمان والے مردوں اور عورتوں پر اللہ رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے گا۔ اس میں (ویرحم اللّٰہ) کی بجائے (ویتوبُ ) فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص نافرمانی کے بعد توبہ کرلے گا وہ بھی رحمت اور مغفرت کا مستحق ہوگا۔ آخر میں جو (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) فرمایا اس میں یہ بات بتادی کہ مغفرت فرمانا اور رحم فرمانا اللہ تعالیٰ کی صفات جلیلہ ہیں، کافر اور مشرک کی تو مغفرت نہیں جیسا کہ دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے، دنیا میں تو سب ہی پر رحمت ہے اور آخرت میں صرف اہل ایمان پر رحمت ہوگی۔ تَمَّ تفسیر سورة الاحزاب، والحمد اللّٰہ الملک الوھاب، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ سیدنا من اوتی الکتاب، وعلیٰ الہ خیر آل واصحاب
Top