Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
نہیں ہے کوئی بھلائی ان کے بہت سے مشوروں میں مگر جو شخص صدقے کا یا اچھی باتوں کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کا حکم دے اور جو شخص یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے گا، سو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
کون سے مشوروں میں خیر ہے ؟ پھر فرمایا (لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰھُمْ ) یعنی جو لوگ آپس میں مشورے کرتے ہیں ان کے بہت سے مشوروں میں کوئی خیر نہیں کیونکہ یہ مشورے اللہ کی رضا کے خلاف بھی ہوتے ہیں اور ان مشوروں میں احکام اسلامیہ کے خلاف بھی باتیں سوچی جاتی ہیں۔ ہاں ان مشوروں میں اگر کوئی ایسی بات ہو کہ ایک دوسرے کو آپس میں صدقہ دینے کے لیے کہا جائے یا کسی نیک کام کے کرنے کا حکم ہو یا لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے کی بات ہو تو یہ مشورے خیر کے مشورے ہوں گے۔ اللہ کی رضا کے لیے جو شخص یہ کام کرے گا اسے اللہ تعالیٰ بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ اس کا تعلق (اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ ) سے ہے جن لوگوں نے چوری کی تھی وہ رات کو ایسے مشورے کرتے رہے کہ ہم چوری کے الزام سے کیسے بچیں اور اس چوری کو کس کے سر دھریں، سبب نزول تو ان چوری کرنے والوں کا عمل ہے لیکن قرآن مجید میں ایک عام طریقے پر مشوروں کا حکم بیان فرما دیا کہ لوگوں کے مشوروں میں عام طور سے خیر نہیں ہوتی۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے کوئی مشورہ کرتے ہیں اور خیر کے کام کے لیے فکر کرتے ہیں اور اس فکر کے لیے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں یہ لوگ بڑے اجر کے مستحق ہیں۔ سورة مجادلہ میں فرمایا (آیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلاَ تَتَنَاجَوْا بالْاِِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَۃِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ اِِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) (کہ اے ایمان والو ! جب تم آپس میں خفیہ طریقے پر مشورے کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے مشورے نہ کرو اور بھلائی کے اور تقویٰ کے مشورے کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم سب جمع کیے جاؤ گے) مومن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سب اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، ہر عمل میں تقویٰ اور آخرت کی پیشی سامنے رہے۔ صلح کرا دینے کی فضیلت : آیت میں فرمایا کہ صدقہ کا حکم اور امر بالمعروف (بھلائی کا حکم دینا) اور لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ان کاموں کا مشورہ ہونا چاہیے اصلاح بین الناس یعنی لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ان کی رنجشیں دور کردینا اور ان کے دلوں کو جوڑ نے کی کوشش کرنا روٹھے ہوئے دوستوں کو منا دینا میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا کرا دینا بہت بڑی ثواب کی چیزیں ہیں۔ حضرت ابو درداء ؓ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم کو نفلی روزوں اور صدقہ دینے اور نفلی نماز پڑھنے کے درجے سے بھی افضل چیز نہ بتادوں، ہم نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیے آپ نے فرمایا کہ یہ چیز آپس میں صلح کرا دینا ہے (پھر فرمایا کہ) آپس کا بگاڑ مونڈ دینے والا ہے۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی و قال ھذا حدیث صحیح) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بغض مونڈ دینے والی صفت ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (رواہ الترمذی)
Top