Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 76
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
انہوں نے کہا اگر میں نے اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے
(76)” قال “ موسیٰ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ” ان سالتک عن شیء بعدھا “ اس مرتبہ کے بعد۔ ” فلا تصاحبنی “ آپ مجھے اپنے آپ سے جدا کرلینا۔ یعقوب نے اس کو پڑھا ” فلا تصاحبنی “ بغیر الف کے مصاحبت سے ماخوذ ہے۔ ” قد بغلت من لدنی عذرا “ ابو جعفر، نافع اور ابوبکر نے ” من لدنی “ تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے حضرات نے اس کو تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے۔ اگر میں آپ کے سامنے عذر بیان کروں جو میں نے اور تمہارے درمیان عہد کیا ہے۔ کہا گیا کہ میں پھر ڈرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میری طرف سے عذر قبول نہ فرمائیے گا۔ حضرت ابن بن کعب ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہم پر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو۔ اگر وہ عجلت سے کام نہ لیتے تو عجیب واقعات دیکھتے لیکن ان کو اپنے ساتھی سے شرم آئی اور انہوں نے ” ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصاحبنی قد بلغت من لدنی عذرا “ فرمایا۔
Top