Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 98
اِ۟لَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ۖ٘ وَ اِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ١ۙ قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَ نَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا۠   ۧ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَرَبَّصُوْنَ : تکتے رہتے ہیں بِكُمْ : تمہیں فَاِنْ كَانَ : پھر اگر ہو لَكُمْ : تم کو فَتْحٌ : فتح مِّنَ اللّٰهِ : اللہ (کی طرف) سے قَالُوْٓا : کہتے ہیں اَلَمْ نَكُنْ : کیا ہم نہ تھے ؟ مَّعَكُمْ : تمہارے ساتھ وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ قَالُوْٓا : کہتے ہیں اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ : کیا ہم غالب نہیں آئے تھے عَلَيْكُمْ : تم پر وَنَمْنَعْكُمْ : اور ہم نے منع کیا تھا (بچایا تھا) تمہیں مِّنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمان (جمع) فَاللّٰهُ : سو اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کرے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَنْ يَّجْعَلَ : اور ہرگز نہ دے گا اللّٰهُ : اللہ لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : مسلمانوں پر سَبِيْلًا : راہ
جو اس بات کے انتظار میں رہتے ہیں کہ تمہارے اوپر کوئی مصیبت آپڑے، سو اگر تمہارے لیے اللہ کی طرف سے فتح یابی حاصل ہوجائے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے تو ان سے کہتے ہیں ہم تم پر غالب نہ آگئے تھے اور کیا ہم نے تم کو مسلمانوں سے نہیں بچایا، سو اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور اللہ ہرگز کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں غالب نہ فرمائے گا۔
آخر میں ارشاد فرمایا (وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب فیصلے ہوں گے تو اللہ کافروں کو ایمان والوں پر غلبہ نہ دے گا دنیا میں تو مسلمانوں کے ابتلاء کے لیے اور کافروں کے استدراج کے لیے کبھی کافروں کا غلبہ ہوجاتا ہے لیکن آخرت میں ہر حیثیت سے مسلمانوں ہی کا غلبہ ہوگا۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کا یہی مطلب مروی ہے۔ صاحب روح المعانی اس کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں مسلمانوں پر غلبہ تام نہیں دے گا کہ جس سے سب مسلمان ایک ایک کر کے ختم ہوجائیں اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ کافروں کو کبھی بھی مومنین کے مقابلے میں کوئی ایسی حجت اور دلیل نہیں مل سکتی جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں سے جیت جائیں دلائل کے اعتبار سے اہل ایمان ہی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (صفحہ 175: ج 5) اور صاحب ہدایہ نے اس آیت کو اس امر کے استدلال میں پیش کیا ہے کہ کسی کافر کی ولایت کسی مسلمان پر نہیں ہے جس کا معنی یہ ہے کہ کوئی کافر اپنی مسلمان اولاد کا ولی نہیں ہوسکتا۔ کافر اپنی کافر اولاد کا نکاح کرسکتا ہے اپنی مسلمان اولاد کے نکاح کی ولایت اسے حاصل نہیں ہے۔
Top