Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 98
اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ
اَوَاَمِنَ : کیا بےخوف ہیں اَهْلُ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمْ : ان پر آجائے بَاْسُنَا : ہمارا عذاب ضُحًى : دن چڑھے وَّهُمْ : اور وہ يَلْعَبُوْن : کھیل کود رہے ہوں
اور کیا اہل شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ نازل ہو اور وہ کھیل رہے ہوں ؟
اہل قریٰ کی بےخوفی : آیت 98: اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی۔ (یا بستیوں والے اس سے بےخوف ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر دن چڑھے آجائے) ۔ دن کو الضحیٰ اصل میں سورج کی روشنی جب خوب چمکنے لگے وائو اور فاء اَوَاَمِنَ اور اَفَاَمِنَ میں یہ دونوں حرف عطف ہیں ان پر ہمزہ انکار کا داخل ہوا اور معطوف علیہ فاخذھم ہے۔ یعنی ہم نے انکو پکڑ لیا اور ولو ان اہل القری سے یکسبون تک جملہ معترضہ ہے۔ جو معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان واقع ہے۔ البتہ پہلے جملے کا عطف فاء سے ہے کیونکہ معنی یہ ہے پس انہوں نے تکبر کیا اور یہ حرکت کی پس ہم نے انکو اچانک پکڑ لیا۔ اہل قر ٰی کی بےخوفی سے اسی بات کو بعید قرار دیا کہ ان پر ہماری پکڑ رات کو آسکتی اور اس سے بےخوف ہوگئے کہ ہماری پکڑ ان پر چاشت کے وقت آجائے۔ وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ (جس وقت وہ کھیل میں لگے ہوں) قراءت : یہ شامی اور حجازی نے اوکے ساتھ عطف کی بناء پر پڑھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان دو صورتوں میں عذاب کے رات کو آنے یا چاشت کے وقت آجانے سے بےخوف ہوجانے کا انکار کیا گیا۔ سوال : حرف عطف پر ہمزہ استفہام کا کس طرح داخل ہوا۔ حالانکہ وہ استفہام کے منافی ہے۔ جواب : ان میں منافات اس وقت ہے کہ جب مفرد کا عطف مفرد پر ہو۔ جب جملہ کا عطف جملہ پر ہو تو کوئی منافات نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں جملہ کا دوسرے جملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ ۔ وہ ایسی چیزوں میں مشغول تھے جو بےفائدہ تھیں۔
Top