Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 131
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 0066﴾ (بس یہ لوگ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اچانک قیامت آجائے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو) ﴿ هَلْ يَنْظُرُوْنَ ﴾ کی ضمیر مستتر کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ احزاب کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں راہ حق پر نہیں آتے حق کو قبول نہیں کرتے ان کا طریقہ کار ایسا ہے کہ انہیں قیامت کا انتظار ہے اچانک قیامت آجائے (جس کا انہیں پتہ بھی نہ ہو کیونکہ پہلے سے اس کی آمد کا وقت نہیں بتایا گیا) تو اس وقت توحید پر آئیں گے اور کفر و شرک چھوڑ دیں گے لیکن اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ فعل مضارع ینظرون کی ضمیر قریش کی طرف راجع ہے ان کے سامنے توحید کے دلائل ہیں قرآن کا معجزہ سامنے ہے پھر بھی توحید پر نہیں آتے انہیں اس کا انتظار ہے کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے اور انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ وہ بھی اچانک آنے والی ہے چونکہ وہ لوگ وقوع قیامت کو مانتے ہی نہ تھے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ اس میں ان لوگوں کی کم فہمی بیان فرمائی، جیسے کوئی شخص اس چیز کے انتظار میں ہو جو ضرور واقع ہونے والی ہو اور جب وہ واقع ہوجائے تو مصیبت بن جائے حالانکہ وہ اس کے وقوع کو اپنے لیے خیر سمجھتا رہا ہو۔ قولہ تعالیٰ : ﴿اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ﴾ قال القرطبی ج 16: ص 103 قرأ نافع وابن عامر الکسائی ” يَصِدُّوْنَ “ (بضم الصاد) ومعناہ یعرضون، قالہ النخعی، وکسر الباقون، قال الکسائی : ھما لغتان، مثل یَعْرُشون، وَینمُّون وینُموُّن، ومعناہ یضجُّون، قال الجوھری : وصَدّیَصُدّ صدیدا، ای ضَجّ وقیل انہ بالضم من الصدود وھو الاعراض، وبالکسر من الضجیج، قالہ قُطُرب، قال ابوعبید : لو کانت من الصدود عن الحق لکانت : اذا قومک عنہ یصدون قال الفراء ھما سواء، منہ وعنہ، ابن المسیب : یصدون یضجون، الضحاک یعجون، ابن عساس : یضحکون، ابو عبیدة : من ضم فمعناہ یعدلون، فیکون المعنی : من اجل المیل یعدلون ولا یُعَدّی ” یصدون “ بمن، ومن کسر فمعناہ یضجون، ” فمن “ متصلہ بہ ” یصدون “ والمعنی یضجون منہ، انتھٰی وقولہ تعالیٰ : وَ لِاُبَيِّنَ لَكُمْ متعلق بمقدر وجئتكم لِاُبین لكمْ (ذكرہ فی الروح)
Top