Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا اور چوگنا سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرسکو
آیات 130- 143 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا لا تاکلوالربو……………اعدت للکفرین۔ توکل : نیز توکل کا اطلاق مومن کے جملہ کردار پر ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے اپنائو ! کہ میدان میں لڑنا جہاد اصغر ہے اور پوری عمر اپنی خواہشات کو مرضیات باری کے تابع رکھنا جہاد اکبر ہے کہ مسلسل اور طویل جنگ ہے۔ زندگی میں عموماً حصول رزق ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے گرد انسانی کوششیں گردش کرتی ہیں اس میں حلال و حرام کی تمیز اور حصول رزق کے جائز ذرائع اختیار کرنا اصل کام ہے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ سود کو قطعی طور پر چھوڑ دو اور دوگنا چوگنا کرکے اگرچہ بہت زیادہ آمدن کا امکان ہے مگر حرام ہو کر خلاف تقویٰ ہے۔ نیز کفار سودی رق میں جنگ کی تیاری پر بھی لگاتے تھے تو مسلمان یہ نہ سوچے کہ اس طرح زیادہ سامان حرب حاصل کیا جاسکے گا بلکہ حقیقی فلاح اور کامیابی کو نگاہ میں رکھے جو اطاعت الٰہی اور تقویٰ پر مرتب ہوتی ہے۔ اس طرح یہ ایک خالص معاشی مسئلہ جنگ اور صلح کے انداز بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومن نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اللہ پر بھروسہ کرے اور کبھی اطاعت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دے اگر کبائر میں مبتلا ہوا تو آگ سے عذاب دیئے جانے کا اندیشہ ہے جو بنیادی طور پر کفار کے لئے تیار ہوئی ہے کہ ممکن ہے کبائر پر اصرار ایمان کے ضیاع کا باعث بن جائے اور خاتمہ کفر پر ہو یا کبائر کی سزا میں جہنم میں جانا پڑے جو حقیقتاً کفار کی جگہ ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ہر حال میں اور ہر کام میں مومن کی نگاہ اخروی نتائج پہ ہونی چاہیے اور دنیا سے مرعوب ہو کر لالچ میں آکر کبھی ایسے ذرائع اختیار نہ کرے جو اللہ کی اطاعت کے خلاف ہوں اور توکل کے منافی ہوں۔ واطیعوا اللہ والرسول……………اعدت للمتقین۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کو شعار بنائو تاکہ تم اللہ کی رحمت کو حاصل کرسکو کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک منصب اور مقام یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا کلام اس کے بندوں تک پہنچایا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے لئے تو یہ بہت کافی ہے تو اس طرح درست ہوگا کہ وہ اس کلام کی شرح اور مفہوم کو اللہ کے رسول ﷺ سے حاصل کرے کیونکہ یہ بھی منصب نبوت و رسالت ہے کہ کتاب کا مفہوم اور تبین ارشاد فرمائے لتبین للناس مانزل الیھم آپ ﷺ بیان فرمائیں کہ نازل شدہ آیات کا مفہوم کیا ہے۔ اطاعت رسول ﷺ کا مفہوم : اطاعت رسول ﷺ کے لئے بطور خاص ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی شخص اپنی پسند کے معانی نہ پہنا سکے ورنہ حضور ﷺ کے مخاطب تو فصحائے عرب تھے اور اپنی تمام عملی قوت اور فصاحت وبلاغت کے باوجود کتاب اللہ کو سمجھنے میں آپ ﷺ کے محتاج تھے اکثر حکام مجمل ارشاد ہوئے اور پھر ان کی تشریح اور تفصیل آپ ﷺ نے لوگوں تک پہنچائی ، جیسے ارشاد ہے اقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ۔ اب نماز میں رکوع ، سجود ، تسبیحات ، قیام یا تعداد رکعت نیز اوقات۔ یہ جملہ امور آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے اور یہ بھی وحی الٰہی سے ہی تھا کہ آپ ﷺ کا منصب تھا۔ ایسے ہی زکوٰۃ کے مختلف نصاب یا دیگر امور بیع وشرایا حلال و حرام سب کی تفصیل آقائے نامدار ﷺ کے ارشادات عالیہ میں ہی مل سکتی ہے نیز آپ ﷺ نے ایک پورا معاشرہ تیار فرمایا جس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے شہری ، بدوی ، عالم ، جاہل بوڑھے ، بچے ، مرد ، عورتیں ، کاشت کار ، مزدور اور تاجر ، ان لاکھوں نفوس قدسیہ کی تربیت کتاب اللہ کے منشاء کے مطابق فرمائی۔ آیات نازل ہوئیں آپ ﷺ نے ان کا مفہوم ارشاد فرمایا۔ اور ان ہی لوگوں نے آپ ﷺ سے وہ آیات سنیں ، مفہوم بھی سمجھا پھر آپ ﷺ کے سامنے اس کے مطابق عمل کرکے حضور ﷺ سے اس کی تائید اور تصدیق حاصل کی۔ اور اس امانت کو آنے والی نسلوں کے سپرد فرمایا۔ اللہ کریم ان سب پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ یہ کسی طرح درست نہیں کہ کوئی شخص قرآن کے الفاظ تو ان سے حاصل کرے اور معانی ومفہوم خود متعین کرے یا ذخیرہ حدیث کو قرآن سے الگ سمجھ کر انکار کر بیٹھے۔ یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ حفاظت الٰہیہ کا وعدہ صرف الفاظ قرآنی تک محدود نہیں بلکہ مفاہیم کو بھی شامل ہے اور اللہ کریم نے جس طرح حفاظت حدیث کی سعادت اہل حق کو نصیب فرمائی ہے یہ انہیں کا حصہ ہے۔ ارشاد ہے کہ اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو یعنی اللہ کی اطاعت حضور ﷺ کی تعلیمات و ارشادات کی روشنی میں اپنی پوری ہمت سے کرو اور اپنی ساری توانائیاں اس پر صرف کردو۔ جس طرح مقابلے کی دوڑ لگانے والا اپنی پوری قوت صرف کردیتا ہے اس طرح حصول مغفرت کے لئے اور دخول جنت کے لئے جو کہ رضائے باری کا مظہر ہے پوری کوشش کرو۔ یہاں مغفرت کے ساتھ صفاتی نام ” رب “ ارشاد ہوا ہے۔ ربوبیت جس طرح ہر شے کی پرورش کرتی ہے وہاں یہ اہتمام بھی کرتی ہے کہ جو شے جہاں مناسب یا ضروری ہو وہ وہیں رکھی جائے اور حسن ترتیب بھی ربوبیت کا ہی کرشمہ ہے کبھی کیکر پر آم نہ آئیں گے اور کیلے کے درخت کو بیری کا پھل نہ لگے گا۔ مغفرت بھی یقینا اسباب مغفرت پہ مرتب ہوگی یعنی اعمال صالحہ اور اتباع سنت پر ، نیز جنت کا داخلہ بغیر مغفرت کے ناممکن ہے ایک ایسی عالیشان جگہ جو اس اعتبار سے بھی بہت ہی اعلیٰ ہے کہ ارض وسما مل کر بھی اس کی قیمت نہیں ہوسکتے یا اس کی وسعت کا حال یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کو بچھا کر جوڑا جائے تو اس کے عرض کا مقابلہ نہیں طول خدا جانے ۔ گویا انسان کے علم میں کوئی ایسی وسیع ترشے نہیں جس کی مثال سے وہ جنت کی وسعت کا اندازہ کرسکے اور یہ وسیع مملکت ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو متقی ہیں۔ الذین ینفقون………………وموعظۃ للمتقین۔ محبوبان حق : ایسے لوگ تنگی وفراخی ہر حال میں اپنی تمام صلاحیتیں اللہ کے لئے صرف کرتے ہیں۔ مال و دولت ہو یا قوت و طاقت ، حکومت واختیار ہو یا علم و حکمت دین و دانش ہو یا آرام و راحت ہر حال میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربان کرتے رہتے ہیں اور بندگان خدا کو ہمیشہ حق و انصاف کی طرف بلاتے ہیں اگر کوئی ان کے حقوق ضائع بھی کرے تو انہیں بھی دکھ ہوتا ہے خواص بشری سے وہ بالاتر نہیں ہوتے۔ مگر اس دکھ یا غصے کا اظہار نہیں کرتے یعنی کسی سے بگڑ کر نیکی کرنے کی عادت ترک نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے صرف حقوق ادا کرنے پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنے حقوق ان پر نچھاور کرتے ہیں اور اس سے کوئی اور غرض نہیں رکھتے صرف اللہ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں ، اور یہ سب کچھ نہایت خلوص کے ساتھ اور دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتے ہیں جو انسانیت کے لئے منتہائے کمال ہے۔ گویا کسی ایسے شخص کو جو نہ اللہ کے حقوق ادا کرے اور نہ بندوں کے ولی گمان کرنا ہرگز درست نہیں۔ یہ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنا دل روشن رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کے قلوب کو روشن کرنے کی فکر کرتے ہیں اس کے باوجود انسان ہوتے ہیں اور بشری تقاضے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان سے بھی خطا ہوسکتی ہے یہ بھی غلطی کرسکتے ہیں کہ عصمت خاصہ نبوت ہے انبیاء (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ اولیاء محفوظ ضرور ہوتے ہیں مگر معصوم نہیں۔ ہاں ! ان کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ یا برائی کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس سے بخش طلب کرتے ہیں۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ ، ” ذکر نسیان کے مقابل ہے “۔ ذکر قلبی : اور یہ جان لیں کہ کلام باری کا مخاطب قلب ہے ، ذہن نہیں تو لازماً نسیان یا ذکر بھی قلب ہی کا مراد ہونا چاہیے اسی طرح ” بحر محیط “ میں ہے کہ زبانی استغفار جس کے ساتھ دل شامل نہ ہو لائق اعتبار نہیں۔ گویا ان لوگوں کے قلب زندہ ہوتے ہیں اور یہی زندگی کا حاصل ہے اسی لئے قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ قلبی ذکر کا حصول ہر مرد عورت پر واجب ہے۔ اللہ ہی خطائوں کو بخشنے والا ہے نیز یہ لوگ گناہ اور برائی کو وطیرہ نہیں بنا لیتے یعنی چھوڑ دیتے ہیں ۔ گویا صدور ذنب منافی ولایت نہیں مگر اصرار علی الذنب منافی ولایت ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ان کی جزا بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور جنت جس کے تحت نہریں رواں ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ جنت میں داخل ہونے والوں کو کبھی وہاں سے نکلنا نہیں ہوگا۔ یہ اطاعت کرنے والوں کے لئے کتنا بہترین اجر ہے کہ کام تو ایک نہایت قلیل مدت تک کیا مگر انعام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نصیب ہوا۔ پھر اطاعت انسانی طاقت کے مطابق کی بلکہ اس میں بھی متعدد کمزوریاں باقی رہیں مگر بدلہ اور اجرت عطائے باری کے شایان شان نصیب ہوئی۔ نیز ان جملہ ارشادات باری کی تصدیق زمین کے چپے چپے پر موجود ہے تم لوگ سے پہلے زمین آباد تھی ، جس میں ہر طرح کے لوگ تھے نیک بھی اور بدکار بھی۔ ان کے حالات کا مطالعہ کرو تو تم جان لو گے کہ ہمیشہ آرام و سکون اور عزت و عظمت دینداروں کے حصے میں رہی۔ کفار ہمیشہ بےچین وبے کل بھی رہے اور انجام کار تباہ وبرباد بھی ہوئے۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک ان کی فانی شوکت پہ نوحہ کناں نظر آتی ہیں۔ یہ سارا بیان انسانیت کے لئے سرمایہ عبرت ہے اور اپنے اندر سامان ہدایت رکھتا ہے اس کی روشنی میں تمام انسان اخلاق فاضلہ اور حسن عقیدہ کو حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ دولت صرف وہ لوگ حاصل کر پاتے ہیں جن کے دلوں کا تعلق یادالٰہی سے ہو اور جنہیں اللہ کی عظمت کا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ احساس ہو۔ (تقویٰ اس نسبت کا نام ہے جو دل کو اللہ کی بارگاہ میں حضوری سے نصیب ہوتی ہے) ولاتھنوا………………وانتم تنظرون۔ تمہیں اس جنگ کی شدت سے بددل ہونا زیب نہیں دیتا اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ فتح بہرحال تمہی کو نصیب ہوگی اور ہمیشہ تم ہی غالب رہو گے شرط صرف یہ ہے کہ خلوص دل کے ساتھ آپ ﷺ کا اتباع اختیار کرو۔ ایمان مضبوط اور عمل صالح ، یعنی حضور اکرم ﷺ سے نسبت کاملہ حاصل ہو کہ یہی حق ہے اور حق کسی حال میں باطل سے مغلوب نہیں ہوتا۔ تمہیں ہمیشہ دین کے احیاء کے لئے اور ظلم وجور کو مٹانے کے لئے میدان عمل میں رہنا ہوگا ، یعنی مسلمان کبھی بھی بددل ہو کر جہاد سے دست بردار نہ ہوں ، نیز ذاتی زندگی ہو یا ملکی وقومی تمام امور میں کامیابی کی شرط ایمان کی مضبوطی ہے اگر تمہارا عقیدہ درست رہا اور اتباع سنت پہ کاربند رہے تو کبھی ناکام نہیں رہو گے۔ یہ عارضی تنگی یا شدت کوئی معنی نہیں رکھتی کہ اگر موجودہ جنگ میں (یعنی احد میں) تمہیں دکھ پہنچا تو اس سے پہلے بدر میں تمہارے مقابل کو بھی بہت زخم کھانے پڑے تھے۔ آج اگر مسلمان شہید اور زخمی ہیں تو کل وہ بھی اپنے سرداروں کی سر بریدہ نعشیں چھوڑ گئے تھے قید ہوئے اور زخموں سے چور۔ تو یہ معاملات دنیا الٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ تنگی وفراخی آتی جاتی رہتی ہے کہ اگر ہمیشہ کافر پہ تنگی اور مومن پر فراخی رہے تو بہت لوگ اضطراراً ایمان کی طرف لپکیں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوگا بلکہ حالات بدلتے رہیں گے اور انسان ہمیشہ اپنے عقل و شعور کے ساتھ اور حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا مکلف رہے گا۔ ہاں ! قابل غور امر یہ ہے کہ کفار لڑے بھی تو باطل کے لئے ، قتل ہوئے تو باطل کے لئے اور مر کر دوزخ میں جھونکے گئے کہ وہ ظالم تھے اور ظالموں کو کبھی اللہ کی محبت نصیب نہیں ہوتی۔ مگر تم لڑے تو حق کے لئے جس کا عند اللہ بہت بڑا اجر ہے ، زخمی ہوئے تو عنداللہ منازل قرب میں ترقی پائی قتل ہوئے تو شہادت پائی اور اللہ نے تمہیں اپنی عظمت کا گواہ چن لیا اور تماری عظمت کو چاردانگ عالم پہ روشن کردیا فلیعم اللہ سے یہی اظہار ہے ورنہ اللہ کا علم تو ازلی ہے وہ قبل وقوع بھی جانتا ہے اور بعد وقوع بھی۔ مومنوں پر مصائب کا فلسفہ : امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف عدم علم شے کے عدم وجود کو لازم ہے ایسے ہی علم شے ، وجود شے کو۔ گویا یہاں مراد ہے کہ تمہیں یہ نعمتیں نصیب ہوں اور اللہ مومنین کو پاک صاف کردے اور کفار کو ملیامیٹ کردے۔ کہ دنیا کی تکالیف جب مومن پہ آتی ہیں تو تلافی مافات کا سبب بنتی ہیں اور ترقی درجات کا باعث۔ عنداللہ کچھ منازل ومقامات ایسے ہیں جو بغیر مصائب کے حاصل ہو ہی نہیں سکتے جیسے مثال کے طور پر شہادت ہی کو لے لیں کہ اس منزل کو پانے کے لئے راہ حق میں نقد جاں لٹانا پڑتا ہے۔ نیز طاعات و عبادات میں بھی کمی رہ جاتی ہے ۔ اکثر اوقات بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے تو شاید ان کا مداوا بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کفار کی بےنصیبی کہ ان پر شدائد بھی بطور عقوبات کے وارد ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے انہیں دنیا میں ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے اگر بدستور اسی ہٹ پر قائم رہیں تو بالآخر تباہ ہوجاتے ہیں اور ابدی ذلت سے دو چار ہوتے ہیں۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ وہ بغیر عمل کے جنت میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے دواوصاف بنیادی ہیں ، جہاد اور صبر۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں ، ان المراد ان دخول الجنۃ وترک المصابرۃ علی الجھاد لا یجتمعان۔ کہ دخول جنت اور جہاد پر ترک صبر جمع نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر خلاف اسلام اٹھنے والی تحریکوں کے بانیوں نے جہاد کو حرام قرار دیا ۔ مقصد مسلمانوں کو کفر کی طرف دھکینا تھا۔ نیز تفسیر کبیر میں ہی اسی بحث کو یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ حب دنیا اخروی سعادت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی جس قدر ایک زیادہ ہوگی دوسری صفت گھٹتی جائے گی کیونکہ حصول دنیا بھی تب ہی ممکن ہے جب دل دنیا کی طلب میں لگ جائے اور اخروی سعادت کا مدار بھی اس بات پر ہے کہ دل ماسوا کی طلب سے فارغ ہو اور اللہ کی محبت سے لبریز۔ یہ دو باتیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں۔ مزید فرماتے ہیں ، اللہ کی محبت نرا دعویٰ کرنے سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہر مدعی سچا ہے بلکہ صداقت کی دلیل یہ ہے کہ جو کام اللہ کو ناپسند ہیں انہیں چھوڑ دے اور اپنی پسند کو قربان کرے کہ ، فان الحب ھوالذی لا تنقص بالجفاء ولا یزاد بالوفاء فان بقی عند تسلیط اسباب البلاء ظھران ذالک الحب کان حقیقتاً ۔ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو محبوب کی سختی سے گھٹتا نہیں اور اس کے وفا کرنے سے بڑھتا نہیں بلکہ حقیقی محبت وہ ہے جو مصائب وشدائد میں بھی برقرار رہے۔ اسی لئے ارشاد ہوا کہ بغیر مجاہدہ اور صبر کے اور اطاعت الٰہی میں خلوص قلب کے ساتھ کوشش کرنے کے دخول جنت کی امید فضول ہے۔ اسباب رحمت کو ترک کرنا غضب کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اور تم لوگ شہادت کی تمنا رکھتے تھے ، اللہ نے وہ مبارک موقع مہیا کردیا اور تم نے موت کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا اب اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں یعنی اگر کبھی کفار کو عارضی غلبہ بھی نصیب ہو تو اس میں مومنین کے لئے شہادت اور قرب الٰہی کے اسباب موجود ہوں گے ۔ نیز بددل ہونے کی بجائے ان کمزوریوں کا پتہ لگانا چاہیے کہ کہاں سے سنت خیرالانام ﷺ کا دامن چھوٹا کہ اتباع سنت کے ساتھ کامیابی یقینی ہے۔
Top