Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
اور موسیٰ کے قصہ میں عبرت ہے جبکہ ہم نے انہیں فرعون کے پاس کھلی ہوئی دلیل کے ساتھ بھیجا،
فرعون اور قوم عاد وثمود کی بربادی کا تذکرہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت اور بربادی کا تذکرہ فرمانے کے بعدفرعون اور عاد اور ثمود کی سرکشی اور ہلاکت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بھی عبرت ہے ہم نے انہیں کھلی ہوئی دلیل دے کر بھیجا یعنی انہیں متعدد معجزات دیئے انہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل فیصلہ کرسکتا تھا کہ یہ شخص واقعی اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہے اور اس کا حق کی دعوت دینا اور خالق اور مالک جل مجدہ کی توحید اور عبادت کی طرف بلانا حق ہے لیکن فرعون نے حق سے اعراض کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ بتادیا اس نے جو یہ حرکت کی یہ اس بنیاد پر تھی کہ اس کے ساتھ اس کی جماعت کے لوگ اور درباری سردار تھے غرور اور تکبر اسے لے ڈوبا وہ بھی ڈوبا اس کے ساتھ اس کے لشکر بھی ڈوبے اس نے ایسی حرکتیں کی تھیں جن کی وجہ سے اس پر ملامت آگئی، اپنے نفس کی طرف سے بھی مستحق ملامت ہوا اور اپنے عوام کی طرف سے بھی۔ فرعون کی ہلاکت اور بربادی اور ڈوبنے کا قصہ کئی سورتوں میں گزر چکا ہے اور سورة ٴ نازعات میں بھی آ رہا ہے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد قوم عاد کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا سورة ٴ انعام، سورة ٴ ہود، سورة الشعراء اور سورة ٴ حم سجدہ میں ان کی ہلاکت کا تذکرہ گزر چکا ہے اور سورة ٴ القمر اور سورة ٴ الحاقہ میں بھی آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بھیجا تھا ان لوگوں نے بڑی سرکشی کی اور کبر اور طاقت کے گھمنڈ میں یہاں تک کہہ گئے ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (ہم سے بڑھ کر طاقت کون ہے) اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت تیز ہوا بھیج دی جو سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی ہوا میں خیر ہوتی ہے جو بارش لے کر آتی ہے لیکن جو ہوا ان میں بھی بھیجی گئی تھی وہ بالکل ہی ہر خیر سے خالی تھی۔ اسی لیے اسے یہاں سورة الذاریات میں ﴿الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ﴾ فرمایا، عربی میں عقیم بانجھ کو کہتے ہیں جیسے بانجھ عورت سے کوئی بھی اولاد پیدا نہیں ہوتی اسی طرح عاد کو برباد کرنے والی ہوا میں کچھ بھی خیر نہ تھی۔ سورة الحاقہ میں فرمایا کہ جب ہوا چلی تو وہ لوگ ایسے گرے ہوئے پڑے تھے جیسے کھجور کے درخت کے وہ تنے پڑے ہوئے ہوں جو اندر سے خالی ہوں، یہاں سورة الذاریات میں اس ہوا کی سختی بتاتے ہوئے فرمایا کہ وہ جس چیز پر بھی گزرتی اسے رمیم یعنی چورا چورا بنا کر رکھ دیتی تھی، جو ہڈیاں گل کر ریزہ ریزہ ہوجائیں یا گھاس پھونس دبدبا کر گھس پٹ کر بھوسہ بن جائے اس کو رمیم کہا جاتا ہے : قال صاحب الروح ناقلاً عن الراغب : یختص الرم بالفتات من الخشب والتین والرمة بالکسر تختص بالعظم البالی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افراد تو کھجوروں کے تنوں کی طرح گرگئے تھے اور باقی چیزیں (جانور وغیرہ) ریزہ ریزہ ہوگئی تھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے جثے بھی بعد میں ریزہ ریزہ ہوگئے ہوں یہ ہوا پچھم کی طرف سے آنے والی تھی رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ( نصرت بالصبا واھلکت عاد بالدبور ) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ 132 عن البخاری) باد صبا کے ذریعہ میری مدد کی گئی (جو خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بھیج دی تھی) اور دبور کے ذریعہ قوم عاد ہلاک کی گئی، صبا وہ ہوا جو مشرق کی طرف سے چل کر آئے اور دبور وہ ہوا جو مغرب کی طرف سے چل کر آئے۔
Top