Anwar-ul-Bayan - At-Tur : 44
وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا كِسْفًا : وہ دیکھیں ایک ٹکڑا مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے سَاقِطًا : گرنے والا يَّقُوْلُوْا : وہ کہیں گے سَحَابٌ : بادل ہیں مَّرْكُوْمٌ : تہ بہ تہ
اور اگر وہ آسمان سے کسی ٹکڑے کو دیکھ لیں کہ گرتا ہوا آرہا ہے تو کہیں گے کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے،
قیامت کے دن منکرین کی بدحالی اور بدحواسی ان آیات میں معاندین کی بدحالی اور سرکشی بتائی ہے اور رسول اللہ ﷺ کو صبر کی تلقین فرمائی ہے اور آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کی سرکشی کا یہ حال ہے کہ اگر آسمان کا ٹکڑا اوپر سے گرتا ہوا دیکھیں جو ان کو عذاب دینے کے لیے گرتا چل آرہا ہو تب بھی متاثر نہ ہوں گے اور ایمان نہ لائیں گے۔ حالانکہ خود ہی ایمان لانے کی شرطوں میں آسمان کا ٹکڑا گرنے کی بھی شرط لگائی تھی۔ حیث قالوا (اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا) اور یوں کہیں گے کہ اجی یہ نہ تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہے اور نہ ہی ان کے کہنے سے اتر رہا ہے بلکہ یہ تو بادل ہے۔ بادل پر بادل جم کر موٹا ہوجاتا ہے اور اوپر نیچے ہوجاتا ہے نہ یہ کوئی عذاب کی بات ہے اور نہ آپ کی نبوت کا معجزہ ہے۔ (العیاذباللہ) سورة الحجر میں ان کے اسی عناد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَۙ0014 لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ (رح) 0015﴾ ” اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت اس میں چڑھ جائیں، تب بھی یوں کہہ دیں گے ہماری نظر بندی کردی گئی تھی بلکہ ہم لوگوں پر تو جادو کر رکھا ہے۔ “
Top