Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 8
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ
فَلَا : پس نہ تُطِعِ : تم اطاعت کرو الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والوں کی
سو آپ تکذیب کرنے والوں کی بات نہ مانیے۔
آپ کی تکذیب کرنے والوں کی بات نہ مانیے، وہ آپ سے مداہنت کے خواہاں ہیں یہ نو آیات کا ترجمہ ہے ان میں سے پہلی دو آیتوں میں یہ فرمایا کہ آپ تکذیب کرنے والوں کی بات نہ مانیے وہ چاہتے ہیں کہ آپ کچھ نرم پڑجائیں تو وہ بھی آپ کے معاملہ میں نرمی اختیار کرلیں، اہل باطل کا یہ طریقہ رہا ہے کہ خود تو حق کی طرف جھکتے نہیں ان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ داعیان حق کو دعوت دیں کہ تم اپنی دعوت چھوڑ دو اور ہمارے کفر و گمراہی میں شریک ہوجاؤ، جب اس پر قابو نہیں چلتا تو کہتے ہیں کہ اچھا آپ کچھ نرم پڑجائیں اپنی دعوت اور دعوت کے کاموں میں نرمی اختیار کرلیں ہم بھی اپنی مخالفت میں اور سختی میں کمی کردیں گے رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے حکم دیا کہ ان کی باتوں میں نہ آئیں جو حکم ہوا ہے اس کے مطابق دعوت دیتے رہیں اور دعوت میں کسی بھی طرح کی نرمی اور مداہنت کو منظور نہ فرمائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ نے یوں کہا تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں ہم بھی آپ کی مخالفت نہ کریں گے۔ اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے کسی حق کام یا حق بات کا چھوڑ دینا جائز نہیں۔ ایک کافر کی دس صفات ذمیمہ : اس کے بعد جو سات آیات ہیں ان میں کسی کا نام نہیں لیا البتہ دس صفات ذمیمہ کا تذکرہ فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ان صفات والے شخص کا اتباع نہ کیجئے اس سے ان صاحب کی مذمت بھی ہوگئی اور جو شخص ان صفات سے متصف ہو اس کی مذمت بھی ہوگئی مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل مکہ میں جو لوگ اسلام اور داعی اسلام ﷺ کے شدید ترین دشمن تھے ان میں ایک شخص ولید بن المغیرہ بھی تھا۔ یہ شخص بہت ہی زیادہ مخالفت پر اترا ہوا تھا۔ ان آیات میں اسی کا ذکر ہے، نام لیے بغیر ارشاد فرمایا کہ ایسے ایسے شخص کی اطاعت نہ کیجئے۔ اول تو ﴿ حَلَّافٍ ﴾ فرمایا یعنی بہت زیادہ قسمیں کھانے والا۔ دوسرے ﴿ مَّهِيْنٍ﴾ فرمایا یعنی ذلیل تیسرے ﴿هَمَّازٍ﴾ فرمایا جو دوسروں کو عیب لگاتا ہے غیبتیں کرتا ہے۔ چوتھے ﴿مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيْمٍۙ0011﴾ یعنی چغل خور ہے جو لوگوں کے درمیان فساد پھیلانے کے لیے چغلی کرتا ہے اور اس مشغلہ میں خوب آگے بڑھا ہوا ہے۔ پانچویں ﴿مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ﴾ یعنی خیر سے روکنے والا، اس میں ہدایت سے روکنا بھی آگیا اور جہاں اللہ کی رضا مندی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں ہاتھ روک لینے اور کنجوسی کرنے کو بھی شامل ہوگیا۔ چھٹے ﴿ مُعْتَدٍ﴾ فرمایا یعنی حد سے بڑھنے والا ظلم کرنے والا۔ ساتویں ﴿اَثِيْمٍۙ0012﴾ فرمایا یعنی گناہگار۔ آٹھویں ﴿ عُتُلٍّۭ﴾ فرمایا یعنی سخت مزاج، نویں فرمایا ﴿ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍۙ0013﴾ یعنی یہ جو کچھ مذکور ہوا اس کے بعد یہ بھی ہے کہ وہ منقطع النسب ہے۔ یہ شخص ثابت النسب نہیں تھا یعنی اس کا باپ معلوم نہ تھا حقیقت میں قریشی نہ تھا مغیرہ نے اس کی اٹھارہ سال عمر ہونے کے بعد اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اسی وجہ سے بعض مفسرین نے لفظ زنیم کا ترجمہ حرام زادہ کیا ہے۔ یہاں یہ جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بچہ ثابت النسب نہ ہو اس کا کیا قصور ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیدا ہونے پر ملامت نہیں ہے حرام زادوں میں افعال قبیحہ اور اخلاق ذمیمہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوجاتے ہیں لہٰذا ان میں ثابت النسب والے افراد والی شرافت عموماً نہیں پائی جاتی، اس کی دسویں صفت ذمیمہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ چونکہ یہ مال والا اور بیٹوں والا ہے اس لیے یہ حرکت کرتا ہے کہ جب اس پر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو جھٹلانے کے طور پر کہہ دیتا ہے کہ یہ پرانے لوگوں کی چیزیں ہیں جو نقل در نقل چلی آرہی ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرتا اور اس کی آیات کی تصدیق کرتا لیکن اس نے مال اور اولاد پر گھمنڈ کر کے آیات قرآنیہ کی تکذیب پر کمر باندھ لی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ جہاں تک ہمارا علم ہے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی فرد کو اتنی صفات ذمیمہ کے ساتھ موصوف نہیں فرمایا جو ولید بن المغیرہ کی صفات فرمائیں۔ آخرت میں جو کفر پر مرجانے کی سزا ہے وہ اپنی جگہ ہے دنیا میں اس کو یہ سزا دی کہ اس کی ناک پر غزوہٴ بدر کے موقع پر ایک تلوار لگی جس کی وجہ سے ناک پر زخم آگیا اور مستقل ایک نشان بن گیا اس کی ناک بھی بڑی تھی جسے خرطوم سے تعبیر فرمایا ہے خرطوم ہاتھی کی ناک کو کہتے ہیں یہ شخص زندگی بھر اپنی اس عیب دار ناک کو لیے پھرتا تھا اور سب کے سامنے اس کی بدصورتی عیاں تھی۔
Top