Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 8
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا : اور ہم نے پیدا کیے لِجَهَنَّمَ : جہنم کے لیے كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ : سے الْجِنِّ : جن وَالْاِنْسِ : اور انسان لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَعْيُنٌ : آنکھیں لَّا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کیلئے اٰذَانٌ : کان لَّا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے بِهَا : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں کے مانند بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْغٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
اور تحقیق ہم نے پیدا کیا جہنم کے لیے بہت سے جنات کو اور بہت سے انسانوں کو، ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ یہ ان سے بڑھ کر بےراہ ہیں، ایسے لوگ غفلت والے ہی ہیں۔
انسانوں اور جنوں میں ایسے لوگ ہیں جو چوپایوں سے زیادہ گمراہ ہیں اس سے پہلی آیات میں ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جسے اللہ نے اپنی آیات دی تھیں اس نے عالم ہوتے ہوئے دنیا کی محبت میں ان آیات کو چھوڑ دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گیا، اس آیت میں عمومی طور پر ہدایت اور گمراہی کے بارے میں حقیقت واضح فرما دی (دیگر آیات میں بھی یہ مضمون بیان فرمایا ہے) اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے ہدایت اور گمراہی اور ہر خیر و شر کا خالق وہی ہے۔ اس نے بندوں کو اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ ہدایت اور ضلالت دونوں کے راستے واضح فرما دیئے ہیں اور اپنے بندوں کو اختیار بھی دیا وہ اپنے اس اختیار کو خیر میں بھی لگا سکتے ہیں اور شر میں بھی، جو اپنے اختیار کو غلط استعمال کرتے ہیں اور گمراہی کے راستے پر چل دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں عذاب شدید ہے، جو لوگ اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کو جتنا بھی سمجھایا جائے بات سمجھنے کا ارادہ نہیں کرتے اس لیے ہدایت کی بات سمجھتے ہی نہیں اور جو ہدایت کی باتیں کان میں پڑتی ہیں ان کو سننے کے طریقے پر نہیں سنتے، اگر ہدایت اور رشدو حق کی کوئی بات کان میں پڑجائے تو ساری سنی اَن سنی کردیتے ہیں اور ہدایت قبول کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے، سننے کی قوت تو برباد کر ہی دی دیکھنے کی قوت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب دلائل تکوینیہ سامنے آتے ہیں اور معجزات کو نظروں سے دیکھتے ہیں تو قصداً اور ارادۃً اندھے بن جاتے ہیں اور ہدایت سے دور بھاگتے ہیں۔ گو خالق ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن بندے اپنے اختیار سے خیر و شر اور ہدایت و ضلالت والے بنتے ہیں۔ (اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ) جن لوگوں کا اوپر ذکر ہوا ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنی بصیرت و بصارت اور فہم و ادراک سے کام نہیں لیتے، ہدایت سامنے ہوتے ہوئے قبول نہیں کرتے اسی لیے یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ گمراہی میں چوپایوں سے بھی بڑھ کر ہیں، جانور اپنی ضرورت کو تو سمجھتا ہے کھانے اور پینے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لیے آوازیں نکالتا ہے اور اپنی حاجت پوری کرلیتا ہے۔ جانوروں کی حاجت اتنی ہی سی ہے۔ ان کے لیے جنت اور دوزخ نہیں ہے اگر جانوروں نے جنت میں جانے اور دوزخ سے بچنے کی فکر کی تو ان سے کوئی ملامت نہیں، لیکن انسانوں اور جنات جن کے سامنے اصلی اور واقعی ضرورت در پیش ہے۔ یعنی انہیں دوزخ کے دائمی عذاب سے بچنے اور جنت کی دائمی نعمتوں میں رہنے کی حاجت ہے اپنی اس ضرورت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پیدا کرنے والے نے نبی بھیجے کتابیں نازل فرمائیں، جنات اور انسانوں کو ان کی واقعی اور اصلی ضرورت بتائی، اور یہ بھی بتایا کہ تمہاری حاجت روائی اور کامیابی ایمان میں اور اعمال صالحہ میں ہے اور بربادی اور ناکامی کفر اور معصیت میں ہے۔ اس سب کو جانتے ہوئے بھی دھیان نہ دینا اور کفر پر جمے رہنا بہت بڑی گمراہی ہے ایسے لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ آخر میں فرمایا : (اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) (یہ لوگ غفلت والے ہی ہیں) آخرت سے بھی غافل ہیں اور آخرت کی ضرورتوں سے بھی۔
Top