Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ
: جیسا کہ
اَخْرَجَكَ
: آپ کو نکالا
رَبُّكَ
: آپ کا رب
مِنْ
: سے
بَيْتِكَ
: آپ کا گھر
بِالْحَقِّ
: حق کے ساتھ
وَاِنَّ
: اور بیشک
فَرِيْقًا
: ایک جماعت
مِّنَ
: سے (کا)
الْمُؤْمِنِيْنَ
: اہل ایمان
لَكٰرِهُوْنَ
: ناخوش
جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو نکالا اور بلاشبہ مؤمنین کی ایک جماعت کو گراں گزر رہا تھا،
غزوۂ بدرکا تذکرہ ان آیات میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے اور رکوع کے ختم تک بلکہ اس کے بعد بھی متعدد آیات میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور پھر مزید تفصیل اس سورت کے پانچویں اور چھٹے رکوع میں بیان فرمائی ہے، غزؤہ بدر کا کچھ تذکرہ سورة آل عمران کے رکوع دوم (انوار البیان ج 2) میں اور کچھ آل عمران کے رکوع نمبر 12 (انوار البیان ج 2) میں گزر چکا ہے۔ وہاں فرمایا ہے (وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ) (اور یہ بات واقعی اور حقیقی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقام بدر میں تمہاری مدد فرمائی جب کہ تم کمزور تھے) ۔ آگے بڑھنے سے پہلے پورا واقعہ ذہن نشین کرلینا چاہئے تاکہ آیت کریمہ میں جو اجمال ہے اس کی تشریح سمجھ میں آجائے۔ قریش مکہ ہر سال تجارت کے لیے ملک شام جایا کرتے تھے مکہ معظمہ سے شام کو جائیں تو راستہ میں مدینہ منورہ سے گزرنا ہوتا ہے۔ شہر مدینہ میں داخل نہ ہوں تو دور سے یا قریب سے اس کی محاذات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے، اب آگے یہ سمجھیں کہ قریش مکہ کا ایک قافلہ تجارت کے لیے شام گیا ہوا تھا بہت سے لوگوں نے اس تجارت میں شرکت کی تھی اور اپنے اموال لگائے تھے۔ قافلہ کے سردار ابو سفیان تھے جو (اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جب ابو سفیان کا قافلہ شام سے واپس ہو رہا تھا جس میں تیس یا چالیس افراد تھے اور ایک ہزار اونٹ تھے تو سرور عالم ﷺ کو اس قافلہ کے گزرنے کا علم ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ قریش کا قافلہ ادھر سے گزر رہا ہے چلو اس قافلہ کو پکڑیں گے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اموال کو عطا فرما دے، آپ نے تاکیدی حکم نہیں فرمایا تھا اور یہ بھی نہیں فرمایا تھا کہ جنگ کرنے نکل رہے ہیں اس لیے بعض صحابہ آپ کے ہمراہ روانہ ہوگئے اور بعض مدینہ منورہ ہی میں رہ گئے، ابوسفیان کو خطرہ تھا کہ راہ میں مسلمانوں سے مڈ بیڑن نہ ہوجائے اس لیے وہ راستہ میں راہ گیروں سے اس بات کا کھوج لگاتا ہوا جا رہا تھا کہ کہیں مسلمان ہمارے قافلہ کے درپے تو نہیں ہیں۔ جب آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے سفر فرمایا تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی اس نے اپنا راستہ بد ل دیا اور ضمضم بن عمرو غفاری کو اہل مکہ تک خبر پہنچانے کے لیے جلدی جلدی آگے روانہ کردیا، اس کو اس کام کا محنتانہ دینا بھی طے کردیا۔ ضمضم جلدی سے مکہ پہنچا اور اس نے خبر دے دی کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تمہارے قافلے کے درپے ہیں اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوچکے ہیں اپنے قافلہ کی حفاظت کرسکتے ہو تو کرلو، یہ خبر سنتے ہی اہل مکہ میں ہل چل مچ گئی اور مقابلہ کے لیے ایک ہزار آدمی جن کا سردار ابو جہل تھا بڑے کروفر اور اسباب عیش و طرب کے ساتھ اکڑتے اور اتراتے ہوئے بدر کی طرف روانہ ہوگئے بدر ایک آبادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے براستہ رابغ مدینہ منورہ کو جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے یہاں سے مدینہ منورہ سو میل سے کچھ کم رہ جاتا ہے، بدر نامی ایک شخص تھا جس نے اس بستی کو آباد کیا تھا اس کے نام پر اس بستی کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ مقام بدر میں ایک کنواں تھا اس کا نام بدر تھا اسی کنویں کے نام سے یہ آبادی مشہور تھی، قریش مکہ اپنے ساتھ گانے بجانے والی عورتیں لے کر نکلے تھے تاکہ وہ گانا گائیں اور لڑائی کے لیے ابھاریں، اس لشکر میں تقریباً تمام سردار ان قریش شامل تھے، صرف ابو لہب نہ جاسکا تھا اس نے اپنی جگہ ابو جہل کے بھائی عاصی بن ہشام کو بھیج دیا تھا، ان لوگوں کے ساتھ دیگر سامان حرب کے علاوہ ساٹھ گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں اور سواری کے اونٹوں کے علاوہ کثیر تعداد میں ذبح کرنے اور کھانے کھلانے کے لیے بھی اونٹ ساتھ لے کر چلے تھے، سب سے پہلے ابو جہل نے مکہ سے باہر آکر دس اونٹ ذبح کر کے لشکر کو کھلائے پھر مقام عسفان میں امیہ بن خلف نے نو اونٹ ذبح کیے، پھر مقام قدید میں سہیل بن عمرو نے سو اونٹ ذبح کیے پھر اگلی منزل میں شیبہ بن ربیعہ نے نو اونٹ ذبح کیے پھر اس سے اگلی منزل میں (جو مقام حجفہ میں تھی) عتبہ بن ربیعہ نے دس اونٹ ذبح کیے۔ اس طرح ہر منزل میں دس دس اونٹ ذبح کرتے رہے اور کھاتے رہے، اور ابو البختری نے بدر پہنچ کر دس اونٹ ذبح کیے۔ قریش مکہ تو مکہ معظمہ سے چلے اور آنحضرت سرور عالم ﷺ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا آپ نے عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو اپنا خلیفہ بنایا وہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے ساتھ روانہ ہونے والوں میں حضرت ابو لبابہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے انہیں مقام روحاء سے واپس کردیا اور امیر مدینہ بنا کر بھیج دیا۔ آپ کے لشکر کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور آپ کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر نمبر وار سوار ہوتے تھے۔ ہر تین افراد کو ایک اونٹ دیا گیا تھا۔ خود آپ ﷺ بھی حضرت ابو لبابہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے ساتھ ایک اونٹ میں شریک تھے۔ نوبت کے اعتبار سے آپ بھی پیدل چلتے تھے۔ مقام روحاء تک یہی سلسلہ رہا جب روحاء سے حضرت ابو لبابہ ؓ کو واپس فرما دیا تو آپ حضرت علی ؓ اور حضرت مرثد ؓ کے ساتھ ایک اونٹ میں شریک رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ جب آپ کے پیدل چلنے کی نوبت آتی تھی تو حضرت ابو لبابہ اور حضرت علی ؓ عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ برابر سوار رہیں ہم آپ کی طرف سے پیدل چل لیں گے۔ آپ نے جواب میں فرمایا ما أنتما باقوی منی و لا أنا بأغنی عن الاجر منکما (مشکوٰۃ المصابیح ص 430) (تم دونوں مجھ سے زیادہ قوی نہیں ہو اور ثواب کے اعتبار سے بھی میں تمہاری بہ نسبت بےنیاز نہیں ہوں۔ یعنی جیسے تمہیں ثواب کی ضرورت ہے مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے) جب آنحضرت ﷺ وادی ذفران میں پہنچے تو وہاں قیام فرمایا۔ اب تک تو ابو سفیان کے قافلے سے تعرض کرنے کی نیت سے سفر ہو رہا تھا یہاں پہنچ کر خبر ملی کہ قریش مکہ سے جنگ کی نوبت آگئی۔ آپ ﷺ نے حضرات صحابہ ؓ سے مشورہ فرمایا کہ قریش ہمارے مقابلہ کے لیے نکل چکے ہیں اب کیا کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہوئے اور اچھا جواب دیا پھر حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے انہوں نے بھی اچھا جواب دیا پھر حضرت مقداد ؓ کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ اپنی رائے کے مطابق تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم ایسا نہ ہوگا جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہہ دیا تھا (اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ) (تو اور تیرا رب چلے جائیں دونوں قتال کرلیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) آپ تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ قتال کرنے والے ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد 1 تک ساتھ لے چلیں گے تو ہم ساتھ رہیں گے اور جنگ سے منہ نہ موڑیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اشیروا علی ایھا الناس (اے لوگو ! مشورہ دو ) آپ کا مقصد یہ تھا کہ انصاری حضرات اپنی رائے پیش کریں۔ آپ کی بات سن کر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا (جو انصار میں سے تھے) کہ یا رسول اللہ ﷺ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہم سے جواب لینا چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! انہوں نے عرض کیا کہ ہم آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی تصدیق کی ہم نے گواہی دی کہ جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد کیا ہے کہ ہم آپ کی بات مانیں گے اور فرمانبر داری کریں گے آپ اپنے ارادہ کے موافق عمل کریں اور تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر راہ میں سمندر آگیا اور آپ اس میں داخل ہونے لگیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ داخل ہوجائیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا ہم جنگ میں ڈٹ جانے والے ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے والے ہیں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے آپ کو ایسی بات دکھا دے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ آپ اللہ کی برکت کے ساتھ چلئے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی بات سن کر آپ کو بہت خوشی ہوئی اور فرمایا کہ چلو خوش خبری قبول کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ دو جماعتوں میں سے تم کو ایک جماعت پر غلبہ عطاء فرمائیں گے (ایک جماعت ابو سفیان کا قافلہ اور دوسری جماعت قریش مکہ کا لشکر) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ جس جماعت سے مقابلہ ہوگا ان کے مقتولین کہاں کہاں پڑے ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں ایک غلام سے ملاقات ہوئی حضرات صحابہ ؓ نے اس سے پوچھا کہ ابو سفیان کا قافلہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا اس کا تو مجھے کوئی پتہ نہیں۔ یہ ابو جہل، عتبہ اور امیہ بن خلف آ رہے ہیں۔ بعض 1 ” برک الغماد “ یہ یمن میں ایک جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ جگہ مکہ معظمہ سے پانچ رات کی مسافت پر ہے۔ (نہایہ ابن کثیر) روایات میں یوں ہے کہ جب ابو سفیان کے قافلے سے تعرض کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تو ایک دن یا دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ نے صحابہ ؓ سے مشورہ لیا تھا کہ ابو سفیان کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم اس سے تعرض کرنے نکلے ہیں (وہ قافلہ تو نکل چکا ہے) اب قریش مکہ کے آنے کی خبر سنی گئی ہے۔ ان سے مقابلہ ہونے کی بات بن رہی ہے اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس پر بعض صحابہ ؓ نے کہا کہ ہمیں تو قریش کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں آپ تو ابو سفیان کے قافلہ کے لیے نکلے تھے آپ نے پھر وہی سوال فرمایا کہ قریش مکہ سے جنگ کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے اس پر حضرت مقداد ؓ نے وہ جواب دیا جو عنقریب گزر چکا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ سوال جواب مقام روحاء میں ہوئے، بعض صحابہ ؓ نے جو یہ کہا تھا کہ ہمیں قریش مکہ سے جنگ کی طاقت نہیں۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَ ھُمْ یَنْظُرُوْنَ ) (اور بلاشبہ مومنین کی ایک جماعت کو گراں گزر رہا تھا وہ آپ سے حق کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اس کے بعد کہ حق ظاہر ہوچکا تھا گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اس حال میں کہ وہ دیکھ رہے ہیں) جب ابو سفیان اپنے قافلہ کو لے کر مسلمانوں کی زد سے بچ کر نکل گیا تو اس نے قریش مکہ کے پاس خبر بھیجی کہ تم ہماری حفاظت کے لیے نکلے تھے اب جبکہ ہم بچ کر نکل آئے ہیں تو تمہیں آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا واپس چلے جاؤ اس پر ابو جہل نے کہا اللہ کی قسم ہم واپس نہیں لوٹیں گے جب تک کہ ہم بدر نہ پہنچ جائیں وہاں تین دن قیام کریں گے۔ اونٹ ذبح کریں گے کھانے کھلائیں گے، شرابیں پئیں گے اور گانے والیاں گانے سنائیں گی اور عرب کو پتہ چل جائے گا کہ ہم مقابلہ کے لیے نکلے تھے ہمارے اس عمل سے ایک دھاک بیٹھ جائے گی اور لوگ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ لہٰذا چلو آگے بڑھو۔ اللہ جل شانہٗ نے اپنے رسول ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر تمہیں غلبہ دیا جائے گا۔ جب آپ نے حضرات صحابہ سے مشورہ فرمایا تو ان میں سے بعض صحابہ ؓ نے یہ مشورہ دیا کہ ابو سفیان کے قافلے ہی کا پیچھا کرنا چاہئے کیونکہ وہ لوگ تجارت سے واپس ہو رہے ہیں، جنگ کرنے کے لیے نہیں نکلے، ان میں لڑنے کی قوت اور شوکت نہیں ہے لہٰذا ان پر غلبہ پانا آسان ہے اور قریش کا جو لشکر مکہ مکرمہ سے چلا ہے وہ لوگ تو لڑنے ہی کے لیے چلے ہیں اور تیاری کر کے نکلے ہیں۔ لہٰذا ان سے مقابلہ مشکل ہوگا۔ ان لوگوں کی اس بات کو ان الفاظ میں ذکر فرمایا (وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ ) (اور تم چاہتے تھے کہ وہ جماعت تمہارے قابو میں آجائے جو قوت و طاقت والی نہیں تھی) ۔ قریش مکہ نے آنحضرت سید عالم ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بہت تکلیفیں دی تھیں اور مکہ مکرمہ کو چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حق نہ خود قبول کرتے تھے اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے۔ غیر متوقع طور پر بدر میں پہنچے اور معرکہ پیش آنے کی صورت بن گئی۔ اس میں گو بعض اہل ایمان کو طبعاً کراہت تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر سب پر غالب ہے۔ جنگ ہوئی اور اہل مکہ نے زبردست شکست کھائی اور ان کا فخر اور طمطراق سب دھرا رہ گیا۔ جس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب بیان ہوگی۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (وَ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ) (اللہ کو یہ منظور تھا کہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت فرما دے) (وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ ) اور کافروں کی بنیاد کو کاٹ دے) (لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ ) (تاکہ اللہ تعالیٰ حق کا حق ہونا ثابت فرما دے اور باطل کا باطل ہونا ثابت فرما دے) (وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ ) (اگرچہ مجرموں کو نا گوار ہو) ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر فرمائی کہ مشرکین مکہ ذلیل ہوئے، اسلام کا حق ہونا علی الاعلان ثابت ہوا اور باطل کا باطل ہونا بھی ظاہر ہوگیا۔ دوست اور دشمن سب نے دیکھ لیا اسی لیے یوم بدر کو یوم الفرقان فرمایا۔ جیسا کہ اس سورت کے پانچویں رکوع میں آ رہا ہے۔ (پوری تفصیل کے لیے البدایہ والنہایہ ص 256 ج 3 کا مطالعہ فرمائیں) فائدہ : (کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ ) میں جو کاف تشبیہ ہے اس کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اختلاف المغانم سے متعلق ہے اور مطلب یہ ہے کما انکم لما اختلفتم فی المغانم انتزعہ اللہ منکم کذلک لما کرھتم الخروج الی الاعداء کان عاقبۃ کراھتکم أن قدرہ لکم و جمع بہٖ بینکم و بین عدوکم علی غیر میعاد رشدا وھدیً ۔ (جیسا کہ تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے تم سے چھین لیا اسی طرح جب تم نے دشمن کی طرف نکلنے کو ناپسند کیا تو اس کے دشمنوں سے لڑائی مقدر کردی اور تمہاری اور دشمن کی مڈ بھیڑ کرا دی بغیر کسی وعدہ و میعاد کے) اور بعض حضرت نے اس تشبیہ کو اس طرح بیان کیا ہے۔ یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَال مجادلۃ کما جادلوک یوم بدر فقالوا اخرجتنا للعیر و لم تعلمنا قتالہ فسنعد لہ ذکرھما (وہ آپ سے مال غنیمت ایسے مانگتے ہیں جیسے وہ آپ سے بدر والے دن جھگڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے آپ نے ہمیں قافلہ کے لیے نکالا تھا لڑائی کی خبر تو نہیں دی تھی کہ ہم اس کی تیاری کرتے) (ابن کثیر ص 284، 285 ج 2) صاحب روح المعانی نے متعدد وجوہ نقل کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حالھم ھذہ فی کراھۃ ما وقع فی امر الانفال کحال اخراجک من بیتک فی کراھتھم لہ (غنیمت کے معاملہ میں واقع ہونے والی صورت حال میں ان کی نا پسندیدگی ایسی ہے جیسے آپ کا ان کو گھر سے نکالنا انہیں ناپسند تھا) (یعنی یہ لوگ آپ سے اموال غنیمت کے بارے میں ایسے سوال کر رہے ہیں جیسا کہ اس وقت جھگڑ رہے تھے جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کے لیے مکہ معظمہ سے نکالا تھا۔ اس وقت یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں پہلے سے نہیں بتایا تھا کہ جنگ کرنی ہوگی۔ اگر آپ پہلے سے بتا دیتے تو ہم اس کے لیے تیاری کرلیتے) (ھذا راجع الی ماذکرہ ابن کثیر اولا) پھر صاحب روح المعانی نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ تقدیرہ و اصلحوا ذات بینکم کما اخرجک و قد التفت من خطاب جماعۃ الی خطاب واحد (اصل عبارت یہ ہے کہ اور تم آپس میں اصلاح کرلو جیسا کہ آپ کو نکالا ہے۔ اس میں پہلے جماعت کو خطاب ہے پھر روئے سخن ایک کی طرف ہوگیا) پھر لکھا ہے۔ و قیل المراد و اطیعوا اللہ و الرسول کما اخرجک اخراجا لامریۃ فیہ و قیل التقدیر یتوکلون توکلاً کما اخرجک۔ و فیہ اقوال اخر (بعض نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ اللہ و رسول کی اطاعت کرو جیسا کہ اس نے تجھے نکالا کہ اس میں کچھ شک نہیں ہے اور بعض نے کہا تقدیر یہ ہے کہ وہ بھروسہ رکھیں جیسا کہ اللہ نے تجھے نکالا) ۔ (راجع روح المعانی ص 169 ج 9) فائدہ نمبر 2: اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ سے مقابلہ کرنے کا مشورہ کہاں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے کہ مدینہ منورہ سے ایک دو دن کی مسافت پر پہنچنے کے بعد مشورہ فرمایا اور بعض روایات میں ہے کہ مقام روحاء میں اور بعض روایات میں ہے کہ وادی ذفران میں مشورہ کیا، ممکن ہے تینوں جگہ مشورہ فرمایا ہو اور بار بار انصار سے ان کی رائے کا اظہار مطلوب ہوتا کہ ان کی رضا اور رغبت کا خوب یقین ہوجائے اور ممکن ہے کہ راویوں سے جگہ کی تعیین میں بھول ہوئی ہو، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top