Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
(2:112) بلی۔ حرف ایجاب ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 3:76 ۔ من شرطیہ ہے۔ جس کسی نے۔ اسلم۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ وہ اسلام لایا۔ وہ تابعدار ہوا۔ وہ مسلمان ہوا۔ اسلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس سے انسان کی جان و مال محفوظ ہوجائے۔ یعنی اسلام کا صرف زبان سے اقرار ہو۔ خواہ اعتقاد ہو یا نہ ہو۔ اس کا درجہ ایمان سے نیچے ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے قالت الاعراب امنا ط قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (49:14) اعراب (گنوار) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ تو۔ کہہ کہ تم ایمان نہیں لائے۔ پر کہو ہم مسلمان ہوئے۔ اس آیت میں یہی اسلام مراد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زبان سے اعتراف کے ساتھ ساتھ دل سے بھی اعتقاد ہو۔ عمل سے پورا کرے اور قضاء وقد الٰہی کے آگے سر جھکادے۔ اسلام کے اس معنی میں ارشاد باری باری تعالیٰ ہے من یؤمن بایتنا۔ فھم مسلمون ۔ (27:81) جو یقین رکھتا ہے ہماری آیات پر سو وہ حکم بردار ہیں۔ من اسلم وجھہ للہ۔ جس کسی نے اللہ کے سامنے اپنا چہرہ (یعنی اپنی گردن) کو جھکادیا۔ وھو محسن۔ حال ہے (درآنحال یہ کہ وہ نیکی کرنے والا بھی ہو) یہ سارا جملہ شرط ہے۔ فلہ اجرہ۔۔ الخ جواب شرط ہے۔ فاء جواب شرط کے لئے ۔ لہ اور اجرہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب من کی طرف راجع ہے۔ ولا یحزنون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب حزن (باب نصر) مصدر سے نہ وہ غمگین ہوں گے۔
Top