Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہاں جس نے اپنی ذات کو اللہ کی فرمانبرداری کے لیے جھکا دیا اور وہ محسن ہو تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اس کے رب کے پاس، اور ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں، اور نہ یہ لوگ رنجیدہ ہوں گے۔
عنداللہ جنتی کون ہے : یہود و نصاریٰ کے دعویٰ کی تردید کرنے اور ان سے دلیل طلب کرنے کے بعد حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا : (بَلٰی مَن اَسْلَمَ وَ جْھَہٗ لِلّٰہِ ) (الایۃ) یعنی دوسرے لوگ کیوں جنت میں داخل نہ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ کا قانون تو یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو اور اپنی ذات کو اللہ کے احکام کی تعمیل میں جھکادے اور وہ صفت احسان سے متصف بھی ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ضرور ملے گا۔ جو جنت کے داخلے کی صورت میں ہوگا۔ ان لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہونے کا کوئی موقعہ ہے یہ عمومی قانون ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا داخلہ جنگ کا مستحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے کسی کی قرابت رشتہ داری نہیں ہے اور نہ کوئی خواہ مخواہ محبوب اور مقرب بن جاتا ہے۔ ایمان پر دخول جنت کا مدار ہے۔ لفظ محسن لفظ احسان سے مشتق ہے جو حسن سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے اچھے طریقے سے کام کرنا اور عمدگی کے ساتھ انجام دینا اس میں احسان عقیدہ اور احسان عمل سب کچھ داخل ہے۔ بعض مفسرین نے محسن کا ترجمہ مخلص سے کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ بھی صحیح ہونا لازم ہے اور عمل بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ جس کا عقیدہ رسول اکرم خاتم النبیین ﷺ کے بتائے ہوئے عقیدوں کے خلاف ہو، وہ عقیدہ میں محسن نہیں ہے لہٰذا اس کی نجات نہیں ہے۔ اس نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے نہیں جھکایا وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ لہٰذا مستحق نجات نہیں، اور جس شخص کا عمل رسول اللہ ﷺ کے عمل کے موافق نہیں ہے یا نیت میں اخلاص نہیں یعنی اللہ کی رضا مطلوب نہیں اس کا وہ عمل مردود ہے۔ اللہ کی محبت کا دعویٰ ہو اور رسول اللہ ﷺ کا اتباع نہ ہو تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ عقیدہ اور عمل دونوں میں اخلاص ضروری ہے منافق عقیدہ میں مخلص نہ تھے اور جو لوگ عقیدہ ٹھیک رکھتے ہیں لیکن عمل اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتے دکھاوے کے لیے اور دنیاوی جاہ و عزت حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ان کے عمل کا آخرت میں کوئی ثواب نہیں۔ سورة کہف کے آخر میں فرمایا : (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) ” سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے “ کافروں اور مشرکوں میں جو لوگ کوئی عمل کرتے ہیں اگر ان میں اللہ کی رضا مقصود رکھتے ہوں تب بھی وہ معتبر نہیں اور آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں۔ کیونکہ عقیدہ کے اعتبار سے گمراہ ہیں اور اللہ کے دین پر نہیں ہیں ان کے لیے سورة فرقان میں فرمایا : (وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ھَبَآءً مَّنْثُوْرًا) ” اور ہم ان کے کاموں کی طرف جو وہ کرچکے تھے متوجہ ہوں گے سوا ان کو ایسا کردیں گے جیسے پریشان غبار “ شاید کوئی شخص اپنی جہالت سے یہ سوال کرے کہ آیت میں مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہے پھر یہ شرط کہاں سے آگئی اس کا جواب یہ ہے کہ (اَسْلَمَ وَجْھَہٗ اور وَھُوَ مُحْسِنٌ) سے ہی یہ قید ثابت ہوتی ہے اور دوسری آیات بھی پیش نظر رکھنا لازم ہے۔ سورة آل عمران کی آیت (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ) کو پیش نظر رکھیں۔
Top