Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
کیوں نہیں (جب کہ ضابطہ عام یہ ہے کہ) جس نے بھی (صدق دل سے) اللہ کے سپرد کردیا، اپنی ذات کو بشرطیکہ وہ نیکو کار بھی ہو، تو اس کے لئے اس کا اجر ہے، اس کے رب کے یہاں، اور ایسوں پر نہ (آئندہ کے بارے میں) کوئی خوف ہوگا، اور نہ ہی وہ (گزشتہ کے بارے میں) غمگین ہوں گے،2
312 جنت میں داخلے کیلئے ضابطہ عام ایمان اور عمل صالح : " بلٰی " کلمہء ایجاب و اثبات ہے، جو نفی کے بعد آتا ہے۔ یعنی تمہارے سوا اور کوئی جنت میں کیوں نہیں جائیگا، جبکہ ضابطہء عام اور قانون عدل و انصاف یہ ہے کہ جو بھی کوئی ایمان و احسان کی راہ کو اپنائے گا وہ اس کا صلہ و بدلہ بہرحال پائے گا۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ جنت سے بہرہ ور و سرفراز ہوگا، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ کیونکہ وہاں اعتبار ذات پات اور حسب و نسب کا نہیں، بلکہ صدق و اخلاص اور عمل و کردار کا ہے۔ سو اس سے جنت میں داخلے اور اس سے سرفرازی کیلئے ضابطہ عام بیان فرما دیا گیا کہ وہ ہے ایمان اور عمل صالح۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اصل چیز جس پر دار و مدار ہے وہ انسان کا اپنا عمل و کردار ہے۔ 313 جنتیوں کیلئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم : سو ایسوں پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جنتی ہوں گے، اور جنتیوں کی شان یہی ہوگی، کہ نہ ان کو آئندہ کے بارے میں کوئی خوف و اندیشہ ہوگا کہ وہ جنت کی ان سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہوچکے ہوں گے، جو نہ کبھی ختم ہوں گی، اور نہ کبھی چھینی جائیں گی کہ وہ { لاَ مَقْطُوْعَۃٍ وَّ لاَ مَمْنُوْعَۃٍ } کی شان والی ہونگی اور نہ ہی ایسے خوش نصیبوں کو اپنی دنیاوی زندگی کے بارے میں کوئی افسوس ہوگا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے وہاں پر صحیح عقیدہ و عمل کی متاع بےبہا سے سرفراز رہے ہوں گے۔ ہاں افسوس اگر ہوگا تو اس کا ہوگا کہ ہم نے حیات مستعار کی اس محدود و مختصر فرصت میں آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کیلئے اور زیادہ کمائی کیوں نہ کی، تاکہ مزیداز مزید درجات قرب و رضا سے سرفراز، اور بہرہ ور ہوتے، جیسا کہ حضرت نبیء معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ " قیامت کے روز نیک و بد ہر کسی کو افسوس کرنا پڑیگا، بد کو تو اس بات کا کہ میں نے بدی کو چھوڑ کر نیکی کی راہ کو کیوں نہ اپنایا، اور نیک کو اس بات کا کہ میں نے اور زیادہ نیکی کیوں نہ کی "۔ اس بارے کچھ مزید روشنی اس سے ملتی جلتی ایک اور آیت کریمہ میں اس سے پہلے بھی ڈالی جا چکی ہے اس کو بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ بہرکیف یہ جنتیوں کی ایک امتیازی شان اور ان کیلئے ایک خاص مژدہ جانفزا ہے کہ جنت سے سرفرازی کے بعد ان کیلئے نہ ماضی کا کوئی غم ہوگا، اور نہ آئندہ کے بارے میں کوئی خوف اللہ محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے اور ہمیشہ راہ حق پر رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العلمین۔
Top