Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 22
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَاقْتَرَبَ : اور قریب آجائے گا الْوَعْدُ : وعدہ الْحَقُّ : سچا فَاِذَا : تو اچانک هِىَ : وہ شَاخِصَةٌ : اوپر لگی (پھٹی) رہ جائیں گی اَبْصَارُ : آنکھیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) يٰوَيْلَنَا : ہائے ہماری شامت قَدْ كُنَّا : تحقیق ہم تھے فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے بَلْ كُنَّا : بلکہ ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (قیامت کا) سچا وعدہ قریب آجائے تو ناگاہ کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں (اور وہ کہنے لگیں کہ) ہائے شامت ہم اس (حال) سے غفلت میں رہے بلکہ ہم (اپنے حق میں) ظالم تھے
(21:97) اقترب۔ ماضی بمعنی مضارع مستقبل واحد مذکر غائب اقترات افتعال مصدر وہ قریب آ لگے گا۔ الوعد الحق۔ موصوف صفت۔ سچا وعدہ۔ واقترب الوعد الحق۔ اس جملہ کا عطف فتحت یا جوج وما جوج پر ہے شاخصۃ۔ کھلی کی کھلی رہ جانے والی۔ شخص یشخص (فتح) شخوص سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث شخص بصرہ اس کی آنکھ پتھرا گئی۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے تشخص فیہ الابصار (14:42) جبکہ دہشت کے سبب نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ابصار۔ آنکھیں۔ بینائیاں۔ بصر کی جمع ہے۔ بصر آنکھ اور بینائی دونوں کو کہتے ہیں۔ بینائی بھی آنکھ کی ہو یا دل کی ہو دونوں کو بصرکہا جاسکتا ہے۔ فاذاھی شاخصۃ ابصار الذین کفروا۔ اذا حرف مفاجاتیہ ہے (یعنی کسی چیز کا اچانک پیش آجانا) اور فاء جزائیہ کے بطور قائم مقام استعمال ہوتا ہے۔ (مثلاً یہاں اذاھی شاخصۃ اور فھی شاخصۃ بھی درست تھا) لیکن یہاں دونوں کو جزا اور شرط کے اصل میں معاونت کے لئے اکٹھا استعمال کیا گیا ہے۔ ھی (ضمیر مؤنث غائب) ضمیر قصہ ہے (جو جملہ سے پہلے بغیر مرجع کے واقع ہو) اور مبتدا ہے شاخصۃ خبر مقدم ہے۔ ابصار (بمع اپنی تفسیر الذین کفروا کے) مبتدا (مؤخر) یعنی جب یہ دونوں باتیں وقوع پذیر ہوں گی تو اہل کفر کی آنکھیں (دہشت سے) کھلی کی کھلی رہ جائیں گے۔ یویلنا۔ ہائے ہماری بدبختی۔ اس سے قبل یقولون مقدر ہے جو یا تو الذین کفروا سے حال ہے یعنی درآں حالیکہ وہ کافر پکار رہے ہوں گے ہائے ہماری بدبختی۔ یا یقولون یویلنا۔ جملہ مستانفہ ہے ۔ یعنی وہ پکار اٹھیں گے ہائے ہماری بدبختی۔ بل۔ بلکہ (مزید برآں) ہم تو قصور وار تھے۔ یعنی یہ محض غفلت ہی نہ تھی بلکہ باوجود تنبیہ و آگہی کے ہم نے جان بوجھ کر قصور کیا اور ظالم ٹھہرے۔ (بل کے متعلق مزید تفصیل ملاحظہ ہو (2:135) اور (21:44) ۔
Top