Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار ! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے
(23:99) حتی۔ ابتدائیہ ہے جیسا کہ ابن عطیہ کا قول ہے صاحب جلالین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے لیکن بیضاوی اور الکشاف میں اسے حرف غایت (حد) لیا گیا ہے اس صورت میں اس کا تعلق یصفون (آیت 96) سے ہے اور آیات 97، 98 ۔ بطور جملہ معترضہ کے ہیں۔ معنی۔ حتی کہ۔ یہاں تک۔ جب تک۔ ارجعون۔ الرجوع باب ضرب سے مصدر امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہ خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور جمع کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے لئے تعظیما لایا گیا ہے۔ اور سائل کی ندامت اور عجز کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ حسان بن ثابت کا شعر ہے :۔ الا فارحمو فی یا الہ محمد ۔ فان لم اکن اھلا فانت لہ اھل ارجعون اصل میں ارجعونی تھا۔ مجھے پھر بھیج دیجئے۔
Top