Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 130
وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ
وَاِذَا : اور جب بَطَشْتُمْ : تم گرفت کرتے ہو بَطَشْتُمْ : گرفت کرتے ہو تم جَبَّارِيْنَ : جابر بن کر
اور جب تم (کسی کو) پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو
(26:130) بطشتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ بطش یبطش (ضرب) و بطش یبطش (نصر) بطش مصدر۔ تم نے پکڑا۔ یہاں بمعنی تم پکڑتے ہو۔ جبارین۔ جبار کی جمع ۔ جبر مادہ۔ زبردست۔ زور آور۔ الجبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کے اصلاح کرنے کے ہیں لیکن اس کا استعمال اصلاح اور محض زبردستی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ جبار جیر سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الجبار جب انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلیّ سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہوتا ہے جیسے ولم یجعلنی جبارا شقیا (19:32) اور مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ کبھی محض دوسرے دوسرے پر استبداد کرنے والے کو جبار کہا جاتا ہے۔ مثلاً وما انت علیہم بجبار (50:45) اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ اور جب الجبار اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس کے معنی غالب آنے والا۔ زبردست بڑائی والا کے ہیں۔ جس کا استعمال مخلوق کی اصلاح کے لئے یا اپنے ارادہ کی تکمیل کے لئے (جو سراسر حکمت پر مبنی ہے) ہوتا ہے۔ یہاں اس آیت میں صاحب روح المعانی کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی گرفت ہے جس میں نہ رحم ہو اور نہ اس میں تادیب کا قصد ہو اور نہ اس میں انجام پر نظر ہو۔ ترجمہ :۔ جب تم کسی پر داروگیر کرتے ہو تو ظالم اور بےدرد بن کر دارروگیر کرتے ہو۔
Top