Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 130
وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ
وَاِذَا : اور جب بَطَشْتُمْ : تم گرفت کرتے ہو بَطَشْتُمْ : گرفت کرتے ہو تم جَبَّارِيْنَ : جابر بن کر
اور جب تم (کسی کو) پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو
واذا بطشتم بطشتم جنارین، بطش کا معنی سطوت اور سختی سے پکڑنا ہے اس کا باب یوں ذکر کیا جاتا ہے قد بطش بہ یطش ویطش بطشا، باطشہ مباطشۃ، حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : بطش سے مراد تلوار سے قتل کرنا اور ڈنڈے سے مارتا ہے۔ اس کا معنی ہے تم نے یہ عمل ظلم کے طور پر کیا۔ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے : اس سے مراد ڈنڈے سے مارنا ہے۔ مالک بن انس نے نافع سے وہ حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کرتے ہیں جو ابن عربی نے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ناحق تلوار سے قتل کرنا ہے۔ یہ یحییٰ بن سلام نے حکایت بیان کی ہے۔ کلبی اور حضرت حسن بصری نے کہا : اس سے مراد غصہ کی وجہ سے قتل کرنا ہے۔ سب حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی طرف راجع ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عمد اور خطا کے طور پر مواخذہ کرنا جب کہ معانی وغیرہ نہ ہو۔ ابن عربی نے کہا : مالک نے جو کہا اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان کرتا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : ” َلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَالا قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اَ تُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًام بِالْاَمْسِق اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ “ ( القصص 19) اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر نہ تلوار سونتی اور نہ ہی اسے نیزہ مارا آپ نے اسے گھونسا مارا۔ اس کی موت اس کے گھونسے میں ہی واقع ہوگئی۔ بطش ید سے بھی ہوتی ہے کم سے کم حالت گھونسا مارنا اور دھکا دینا ہے اس کے بعد سوط اور عصا سے مارنا ہے اور اس سے بڑھ کر لوہے سے مارنا ہے، سب مذموم ہے مگر جب حق کے ساتھ ہو۔ آیت اس لیے نازل ہوئی تاکہ اس امر کی خبر دے جو سابقہ امتوں میں گزرا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہیں نصیحت ہے کہ ہم اس فعل سے پہلو تہی کریں جس کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی اور ان پر اسے ناپسند کیا۔ میں کہتا ہوں : یہ مذموم اور اوصاف اس امت کے کثیر افراد میں پائے جاتے ہیں خصوصاً مصری علاقوں میں جب سے ترک ان کے حاکم بنے ہیں وہ ناحق سوط اور عصا سے لوگوں کو مارتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے خبر دی تھی کہ یہ امر واقع ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دو قسم کے لوگ جہنمی ہیں میں نے ان دونوں کو نہیں دیکھا ایک ایسی قوم جن کے پاس سوط (ڈنڈے) ہوں گے جس طرح گائیوں کی دنبیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے اور ایسی عورتیں جو لباس پہنے ہوں گی، ان کے جسم عیاں ہوں گے، جو خود گمراہ ہوں گی اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گی ان کے سرد بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے جب کہ جنت کی خوشبو اتنے اتنے فاصلہ سے محفوظ کی جاسکتی ہے “۔ (1) ابو دائود نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” جب تم بیع عینہ (2) کرو تم بیلوں کی دمیں پکڑو اور کھیتی پر راضی ہو جائو اور جہاد کو ترک کرو تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط کر دے گا وہ اس ذلت کو دور نہیں کرے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ جائو گے “۔ جبارین قتل کرنے والے، جبار اسے کہتے ہیں جو ناحق قتل کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ “ ( القصص : 19) یہ ہر وی نے قول کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جبار سے مراد ایسا شخص ہے جو سر کش اور تسلط جمانے والا ہو۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّار ٍقف “ (ق : 45) سے مراد مسلط ہے۔ شاعر نے کہا : سلبنا من الجبار بالسیف ملکہ عشینا و اطراف الرماح شوارع ہم نے پچھیل پہر جبار سے اس کا ملک تلوار سے چھین لیا جب کہ نیزے کی انیاں تنی ہوئی تھیں۔ فاتقوا اللہ واطیعون ان کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ ” واتقوا الذی امد کم بما تعلمون “ یعنی بھلائیوں سے تمہاری مدد کی، پھر اس ارشاد :” امد کم با نعام و بنین۔ وجنت وعیون “ کے ساتھ اس کی تفسیر بیان کی، یعنی ان چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کیا اور تم پر ان کے ساتھف فضل و احسان فرمایا وہ ہی ایسی ذات ہے جس کی عبادت کرنا اس کا شکر بجا لانا اور اس کی نا شکری نہ کرنا واجب ہے۔ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم اگر تم اس کا انکار کرو اور تم اس پر اصرار کرو تو میں تمہارے بارے میں یوم عظیم کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ قالو سواء علینا او عظت ام لم تکن من الوعظین یہ سب ہمارے لیے برابر ہے نہ ہم تجھ سے یہ بات سنتے ہیں اور نہ ہی اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو تم کہتے ہو۔ عباس نے ابو عمرو سے اور بشر، کسائی سے روایت نقل کرتے ہیں اور حظت۔ 1 ؎۔ صحیح مسلم، باب فی فناء الدنیا بیان العشر یوم القیم ج 2، صفحہ 383۔ 2 ؎۔ دشمن معلوم پر کسی کو کوئی چیز ادھار بیچے پھر اس قیمت سے کم قیمت پر تو اس سے وہ چیز خریدے۔ میں ظاء تاء میں مدغم ہے۔ یہ قول بعید ہے کیونکہ ظاء حروف مطلقہ میں سے ہے یہ صرف اس میں مدغم ہوتا ہے جو اس کے بہت ہی قریب ہو وہ اس کی مثال ہو یا اس کا ہم مخرج ہو۔
Top