Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے (راستہ کا) پتہ لاتا ہوں یا سلگتا ہوا انگارا تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو
(27:7) اذقال موسیٰ : ای اذکر لہم وقت قول موسی۔ ان کو یاد کراؤ وہ وقت جب (حضرت) موسیٰ نے کہا۔ انست۔ ماضی واحد متکلم ایناس (افعال) مصدر میں نے محسوس کیا۔ میں نے دیکھا۔ اس کا مادہ انس ہے۔ الانس (کسرہ ہمزہ کے ساتھ) جن کی ضد ہے۔ اور انس (بضمۃ الہمزہ) نفور کی ضد ہے۔ انس (باب افعال) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھنا کے ہیں مثلاً حتی تستانسوا (24:27) جب تک تم ان سے (اجازت لے کر) انس پیدا نہ کرلو۔ اور فان انستم منھم رشدا (4:6) اور اگر تم ان میں عقل کی پختگی دیکھو یا محسوس کرو۔ یہاں بھی اس آیۃ میں انہی معنوں میں آیا ہے۔ میں نے دیکھی ہے۔ ساتیکم : سین مستقبل قریب کے لئے ہے۔ اتی اتیان سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ آنے والا۔ لیکن جب اس کا تعدیہ باء کے ساتھ ہو تو بمعنی لانے والا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ساتیکم میں ابھی تمہارے پاس خبر لاتا ہوں۔ اور خبر سے مراد راستے کے متعلق معلومات ہیں۔ والمراد بالخبر الذی یاتیہم من جھۃ النار الخبر عن ھال الطریق آگ کی جانب سے جو وہ خبر لائے گا اس سے مراد راستہ کے احوال کے متعلق معلومات ہیں (جو حضرت موسیٰ کی منزل مراد کی طرف ممدو معاون ہوسکیں) (بحوالہ روح المعانی) ۔ یعنی اگر یہ آگ کسی بستی میں ہے یا وہاں آگ جلانے والے موجود ہیں تو شاید وہ راستہ کی رہنمائی میں معلومات بہم پہنچا سکیں۔ او یا۔ (اگر وہ بھی کوئی چلتے پھرتے مسافر جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں تو کم از کم کچھ انگارے ہی لے آؤں گا سینکنے کیلئے شھاب قبس۔ شہاب۔ انگارا۔ فضا میں ٹوٹنے والا تارا۔ چمکدار شعلہ جو بھڑکتی ہوئی آگ میں ہوتا ہے اس کی جمع شھب ہے۔ جیسے کتب کی جمع کتب ہے۔ قبس آگ کا شعلہ ۔ آگ کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے۔ قبس واقتباس (افتعال) مصدر جس کے معنی بڑی آگ سے کچھ آگ لینے کے ہیں۔ مجازا علم و ہدایت کی طلب پر بھی بولا جاتا ہے جیسے انظرونا نقتبس من نورکم (57:13) ہماری طرف نظر کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرسکیں۔ یہاں مراد ہے ٹھہرئیے۔ یہاں اگر قبس بمعنی مقبوس یعنی بڑی آگ سے لکڑی وغیرہ جلا کرلی ہوئی آگ، تو شہاب کی صفت ہے یا یا یہ شہاب کا بدل ہے یعنی آگ کا شعلہ کسی لکڑی وغیرہ میں لگا ہوا لاتا ہوں۔ تصطلون۔ مضارع جمع مذکر حاضر اصطلاء (افتعال) مصدر۔ تم تاپو۔ تم سینکو۔ صلی مادہ۔
Top