Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 62
وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن يُنَادِيْهِمْ : وہ پکارے گا انہیں فَيَقُوْلُ : پس کہے گا وہ اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کرتے تھے
اور جس روز خدا انکو پکارے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کا تم کو دعوی تھا ؟
(28:62) یوم۔ مفعول فیہ ہے فعل محذوف کا۔ ای اذکر یوم۔ ینادیہم : ینادی مضارع واحد مذکر غائب۔ نادی ینادی مناداۃ (مفاعلۃ) وہ پکارے گا۔ وہ بلائے گا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ان کو وہ ان کو پکارے گا۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے قیامت کے دن بالواسطہ یا بلاواسطہ پکارے گا (اور یہ نداء اہانت و توبیخ کی ہوگی) ۔ فیقول۔ میںعاطفہ ہے یقول کی ضمیر فاعل کا مرجع بھی اللہ تعالیٰ ہے ۔ کنتم تزعمون۔ ماضی استمراری صیغہ جمع مذکر غائب زعم (نصر) سے مصدر۔ اسی لئے قرآن مجید میں جہاں بھی زعم کا استعمال ہوا ہے وہاں کہنے والے کی مذمت ہی مقصود ہے۔ کنتم تزعمون تم دعوی کیا کتے تھے۔ تم خیال کیا کرتے تھے (کہ میرے شریک ہیں) اور جگہ اس کا استعمال زعمتم من دونہ (17:56) جنہیں تم نے اس (اللہ) کے سوا (معبود) خیال کیا۔
Top