Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 94
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور جب مومنوں نے (کافروں کے) لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا خدا اور اس کے پیغمبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اس کے پیغمبر نے سچ کہا تھا اور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت اور زیادہ ہوگئی
(33:22) من المؤمنین میں من تبعیضیہ ہے اور مومنین سے مراد مطلقا ان سے ہے جو اخلاص سے ایمان لائے ہوئے تھے۔ رجال صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ رجال پر تنوین تعظیم کی ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوت و مردانگی میں بےنظیر تھے۔ یقال فلان رجل فی رجال ای کامل الرجولیۃ بینھم (المنجد) یعنی اہل ایمان میں سے ایسے جواں مرد اور پاکباز عشاق بھی ہیں ۔ جنہوں نے اپنے رب کریم سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کر دکھایا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرات انس بن نضیر، عثمان بن فعان، طلحہ بن عبید اللہ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ، حمزہ ، مصعب بن عمر وغیرہ تھے ؓ اجمعین۔ یہ حضرات بعض وجوہ کی بنا پر جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے جس کا ان کو ازحد افسوس تھا۔ انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اب کوئی ایسا موقعہ آیا تو وہ اپنی جانبازی کے جوہر دکھائیں گے۔ صدقوا ما عاھدو اللہ علیہ : صدقوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ صدق (باب نصر) سے مصدر۔ انہوں نے سچ کر دکھایا۔ صدق فی الحدیث سچ بولنا۔ وصدق فی الوعد۔ وعدہ پورا کرنا۔ وصدق فی القتال۔ بےجگری سے لڑنا۔ ما موصولہ ہے۔ عاھدوا اللہ علیہ۔ جس کے متعلق انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا۔ معاھدۃ (مفاعلۃ) سے۔ منھم میں بھی من تبعیضیہ ہے۔ بعض ۔ کچھ، ہم ضمیرجمع مزکر غائب ان مؤمنین کے لئے ہے جس کا اشارہ ما عاھدوا اللہ علیہ میں ہے یا رجال جو اس سے قبل مذکور ہے۔ من موصولہ ہے۔ قضی تحیہ۔ قضی ماضٰ واحد مذکر غائب قضاء (باب ضرب) قضی یقضی قضاء پورا کرنا۔ ادا کرنا۔ مثلا قضی حاجتہ اس نے ضرورت کو پورا کیا۔ قضی وطرہ اپنی مراد کو پہنچا۔ قضی الصلوۃ نماز کو ادا کرنا۔ نحب نذر کو ادا کیا۔ اس نے اپنی منت پوری کردی۔ کبھی نحب سے کنایۃ موت مراد لی جاتی ہے کیونکہ موت بھی ہر جاندار کے گلے میں نذر کی طرح لازم ہے سو قضی نحبہ یا قضی اجلہ سے مراد موت آجانا ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسے تھے جو اپنی نذر پوری کرچکے۔ یعنی شیادت پاگئے۔ (مثلاً حضرت حمزہ اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ وغیرہ) ومنھم من (اوپر مذکور ہوا) ینظر مضارع واحد مذکر غائب انتظار (افتعال) مصدر۔ وہ انتظار میں ہے۔ وہ منتظر ہے۔ اور ان میں وہ بھی ہیں جو راہ دیکھ رہے ہیں (کہ کب شہادت کی سعادت انہیں نصیب ہو) ان میں حضرت عثمان اور حضرت طلحہ وغیرہ ؓ ہیں۔ ما بدلوا تبدیلا۔ مافتی منفی جمع مذکر غائب ، انہوں نے نہیں بدلا۔ تبدیل (تفعیل) مصدر ۔ مصدر منصوب تاکید کے لئے یالا گیا ہے۔ یعنیوی اپنے ارادہ و عہد پر ثابت قدم اور پختہ ہیں انہوں نے ہرگز اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ تفسیر ماجدی میں ہے کہ تبدیلا تنوین تصغیر کے لئے ہے یعنی کسی نوع ، کسی قسم کی ادنی تبدیلی بھی ان میں نہیں ہوئی۔ اس جملہ کا عطف صدقوا پر ہے اور ضمیر فاعل کا مرجع منتظرین ہے۔
Top