Mutaliya-e-Quran - Ar-Rahmaan : 39
فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖۤ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّۚ
فَيَوْمَئِذٍ : تو اس دن لَّا يُسْئَلُ : نہ پوچھا جائے گا عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ : اپنے گناہوں کے بارے میں اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ : کوئی انسان اور نہ کوئی جن
اُس روز کسی انسان اور کسی جن سے اُس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی
فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ [ پھر اس دن نہیں پوچھا جائے گا ] عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ [ اس کے گناہ کے بارے میں ] اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ [ کسی انسان سے اور نہ کسی جن سے ] نوٹ۔ 1: قیامت کے دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ تم نے فلاں جرم کیا ہے یا نہیں کیونکہ ہو لوگ اپنی نشانی سے پہچانے جائیں گے ۔ مجاہد نے فرمایا کہ فرشتے جو مجرمین کے عذاب پر مامور ہیں ان کو مجرمین سے پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ تم نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں ۔ کیونکہ ہر جرم کی ایک خاص نشانی مجرمین کے چہروں سے ظاہر ہوگی ، فرشتے وہ نشانی دیکھ کر ان کو جہنم میں دھکیل دیں گے ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس روز مجرمین کی علامت یہ ہوگی کہ چہرے سیاہ آنکھیں نیلگوں اور رنج وغم سے چہرے فق ہوں گے ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ) نوٹ۔ 2: جرم کی حقیقی بنیاد قرآن کی نگاہ میں یہ ہے کہ بندہ جو اپنے رب کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اپنے نزدیک یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نعمتیں کسی کی دی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ اسے مل گئی ہیں یا یہ کہ یہ نعمتیں خدا کا عطیہ نہیں بلکہ اس کی اپنی قابلیت یا خوش نصیبی کا پھل ہیں یا یہ کہ خدا نے خود یہ مہربانیاں اس پر نہیں کی ہیں بلکہ کسی دوسری ہستی نے اس سے کرادی ہیں ۔ یہی وہ غلط تصورات ہیں جن کی بنا پر آدمی خدا سے بےنیاز اور اس کی اطاعت و بندگی سے آزاد ہوکر دنیا میں وہ افعال کرتا ہے جن سے خدا نے منع کیا ہے اور وہ افعال نہیں کرتا جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔ اس لحاظ سے ہر جرم اور ہر گناہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی تکذیب ہے قطع نظر اس سے کہ کوئی شخص زبان سے ان کا انکار کرتا ہو یا اقرار ۔ مگر جو شخص تکذیب کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں تکذیب موجود ہوتی ہے وہ اگر کسی بشری کمزوری سے کوئی قصور کر بیٹھتا ہے تو اس پر استغفار کرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے یہ چیز اسے مکذبین میں شامل ہونے سے بچالیتی ہے ۔ اس کے سوا باقی تمام مجرم درحقیقت اللہ کی نعمتوں کے منکر ہیں ۔ اس لیے فرمایا کہ جب تم لوگ مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہوجائو گے اس وقت ہم دیکھیں گے کہ تم ہمارے کس کس احسان کا انکار کرتے ہو ۔ (تفہیم القرآن )
Top