Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 27
وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِیَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا۠   ۧ
وَاَوْرَثَكُمْ : اور تمہیں وارث بنادیا اَرْضَهُمْ : ان کی زمین وَدِيَارَهُمْ : اور ان کے گھر (جمع) وَاَمْوَالَهُمْ : اور ان کے مال (جمع) وَاَرْضًا : اور وہ زمین لَّمْ تَطَئُوْهَا ۭ : تم نے وہاں قدم نہیں رکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور انکی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنادیا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
(33:27) اور ثکم : اور ث ماضی واحد مذکر غائب ۔ ایراث (فعل) سے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اس نے تم کو وارث بنایا۔ اس کا عطف انزل پر ہے۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے ارضہم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثانی۔ (بمعنی زیر کاشت اراضی مشتمل پر باغات و فصلات) دیارھم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثانی۔ (بمعنی ان کے حصون قلعے، گڑھیاں) اموالہم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعولرابع، ان کے مال (بمعنی مویشی و نقد مال) وارضا لم تطواھا (اور زمین جس پر ابھی تم نے قدم نہیں رکھا۔ جو بعد میں مسلمانوں کی تحویل میں آنے والے ملک تھے) لم تطوا مضارع نفی جحد بلم صیغہ جمع مذکر حاضر۔ وطی یطا (باب سمع) وطا۔ مصدر وطی الشیء برجلہ پاؤں کے نیچے روندنا۔ پامال کرنا۔ قرآن مجید میں ہے ان ناشئۃ الیل ہی اشد وطا (73:6) کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا (نفس بہیمی کو) سخت پامال کرتا ہے۔ لم تطوھا جس کو تم نے اپنے پاؤں تلے نہیں روندا۔ یعنی جہاں (ابھی تک) تم نے پاؤں نہیں رکھا۔ ھا ضمیر ارضا کے لئے ہے، و ط ء مادہ۔ قدیرا صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر بحالت نصب۔ نصب بوجہ خبر کان ہے۔ قدیر وہ ہے جو اقتضاء حکمت کے موافق جو چاہے کرے۔ شرعی اصطلاح میں قدیر کا اطلاق غیر اللہ پر نہیں ہوتا۔ فتعالین فاء ترتیب کا ہے۔ تعالین فعل امر جمع مؤنث حاضر۔ تعالیٰ (تفاعل) سے تعالیٰ یتعالی تعالیٰ : تعال امر کا صیغہ ہے بمعنی بلند مقام کی طرف بلانا۔ پھر ہر جگہ بلانے کے لئے استعمال ہونے لگا۔ یہ علو سے ماخوذ ہے جس کے معنی رفعت منزلت کے ہیں۔ گویا تعالوا میں رفعت منزلت کے حصول کی دعوت ہے۔ تعال : ہلم کا ہم معنی ہے۔ فتعالین تو تم آؤ۔ امتعکن امتع : متع یمتع تمتیع (تفعیل) سے مضارع کا صیغہ واحد متکلم ہے۔ تمتیع کے معنی تھوڑا بہت فائدہ پہنچانا یا تھوڑا بہت اسباب و مال دینا کے ہیں۔ کن ضمیر مفعول جمع مؤنث حاضر کا صیغہ ہے۔ میں تمہیں کچھ مال و متاع دیدوں ۔ اسرحکن اسرح۔ سرح یسرح تسریح (تفعیل) سے مضارع واحد متکلم ہے۔ تسریح کے معنی چھوڑنے یا رضصت کرنے کے ہیں۔ تسریح کے اصل معنی جانوروں کو چعنے کے لئے چھوڑ دینے کے ہیں۔ استعارۃ اس کے معنی طلاق دینے کے بھی ہیں۔ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل (اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعار ہے۔ سراحا جمیلا موصوف و صفت۔ سراحا۔ رضصت کرنا۔ چھوڑنا۔ طلاق دینا۔ تسریح سے اسم ہے۔ جیسے تبلیغ سے بلاغ ہے خوبی کے ساتھ رخصت کرنا۔ اسرحکن سراحا جمیلا۔ تمہیں خوبصورتی کے ساتھ (آبرو مندانہ طریقہ سے) رخصت کروں۔
Top