Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 56
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے (کے شہر) میں بری بری خبریں اڑایا کرتے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو انکے پیچھے لگا دینگے پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن
(33:60) لئن۔ اس میں لام زائدہ ہے ان حرف شرط ہے ۔ اگر۔ لم ینتہ مضارع نفی حجد بلم ۔ واحد مذکر غائب انتھاء (افتعال) مصدر۔ ینتہ اصل میں ینتھی تھا لم کے عمل سے یگر گئی۔ وہ نہیں رکا۔ وہ باز نہ آیا۔ یہاں آیۃ میں جمع کے لئے آیا ہے۔ وہ نہ رکے۔ وہ باز نہ آئے۔ نھی مادہ (ناقص یائی) ۔ لئن لم ینتہ المنفقون والذین فی قلوبہم مرض۔ وائو حرف عطف ہے۔ الذین کا عطف المنفقون پر ہے مریض قلب سے مراد وہ ہیں جن کا ایمان کمزور ہے۔ والمرجفون اس کا عطف بھی المنافقون پر ہے اس کا واحد المرجف ہے الرجف مصدر (باب نصر) کے معنی اضطراب شدید ہے۔ اور رجفت الارض کے معنی زمین میں زلزلہ آنے کے ہیں۔ بحر رجاف متلاطم سمندر قرآن مجید میں ہے یوم ترجف الارض والجبال (73:14) جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے۔ الارجاف (باب افعال) جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعے اضطراب پھیلانا ہے الارجاف ای اشاعۃ الکذب والباطل۔ المرجفون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ جھوٹی افواہیں پھیلانے والے۔ لنغرینک۔ لام تاکید کا ہے نغرین فعل مضارع بانون ثقیلہ تاکید صیغہ جمع متکلم۔ اغراء (افعال) مصدر۔ اغری ب مسلط کرنا۔ سردار بنانا ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ہم تجھ کو ضرور (ان پر) مسلط کردیں گے۔ یہ جملہ جواب شرط ہے۔ ثم۔ (پھر) حرف عطف ہے۔ ما قبل سے مابعد کے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ خواہ یہ متاخر ہونا بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ۔ یہاں ترتیب کا فائدہ دیتا ہے یعنی نہ صرف ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے بلکہ مزید برآں یہ لوگ مدینہ میں بس قدر قلیل رہنے پائیں گے ! لا یج اور نک۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب مجاورۃ (مفاعلۃ) مصدر پڑوس میں رہنا۔ جار پڑوسی۔ جوار پڑوس۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تمہارے پڑوس (یعنی مدینہ) میں نہیں رہیں گے۔ قلیلا۔ کم، تھوڑا۔ قلیل، قلت سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے ۔ اس کی یہاں دو صورتیں ہیں۔ (1) ضمیر فاعل یجاورون کا حال ہے۔ ای لا یجاورونک الا فی حال قلۃ۔ وہ صرف اقلیت کی حالت میں رہیں گے۔ (2) یہ وقت محذوف کی صفت ہے ای لا یجاورونک الا وقتا قلیلا وہ صرف قلیل عرصہ رہیں گے (اس کے بعد ان کو یہاں سے نکال دیا جائے گا) ۔
Top