Tafseer Ibn-e-Kaseer - Az-Zumar : 114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا کون ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد کو روکے اور ان کی ویرانی میں کوشاں ہو ؟ جن لوگوں کے ظلم کا یہ حال ہے تو وہ اس قابل ہی نہیں کہ اللہ کی عبادت گاہوں میں وہ قدم رکھیں بجز اس حالت کے کہ وہ ڈرے ، سہمے ہوئے ہوں ، ایسے لوگوں کیلئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے
دین اسلام میں صرف ایک ہی مرکز کا ہونا ضروری ہے : 214: جس طرح دنیا میں ہر قوم کی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایک مرکز ہو اسی طرح اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لئے ایک مرکز ضروری قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ تمام افراد ملت اس کے ساتھ وابستہ ہوں ہر شخص کو اس کے ساتھ پیوستگی اور مواصلت ہو۔ یہ ایک ایسا قاعدہ کلیہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہرچیز اس کے ماتحت کام کر رہی ہے۔ ہزاروں لاکھوں نجوم و کو اکب ، ستارے اور سیارے ہیں مگر سب کا تعلق سورج کے ساتھ ہے ایک درخت کی صدہا ٹہنیاں اور شاخیں ہیں مگر سب کا رزق جڑ سے آتا ہے ۔ ہر دریا اور نہر کے لئے کوئی نہ کوئی چشمہ و مرکز ہے اسی قاعدے کے مطابق ضرورری تھا کہ امت مسلمہ کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایک مرکزی درسگاہ ہوتی جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل جاتیں جو ان تمام متفرق و منتشرا جزاء کے لیے اتحاد کا مرکزی نقطہ ہوتی جو سب کے لئے جڑ کا کام دیتی جس کے سر چشمہ سے تمام عالم اسلامی کے دریا اور نہریں سیراب ہوتیں۔ چناچہ اس غرض کے لئے وادی غیر ذی ذرع یعنی مکہ مکرمہ کو منتخب کیا گیا۔ وہ سب سے اعلیٰ تعلیم گاہ قرار پائی اور دنیا بھر کی تمام مساجد کو اس کے ساتھ ملحق کردیا گیا کہ سب درسگاہوں کی نگران کارو محافظ ہو۔ جب مختلف اسلامی شہروں کے مسلمان اپنی اپنی تعلیم گاہوں سے فارغ ہوں تو ایک مرتبہ اس مرکزی درسگاہ میں بھی ضرور حاضر ہوں۔ یہودیوں نے نسخ قبلہ پر اعتراض کیا کہ بیت اللہ قبلہ نہ بنے لیکن دراصل ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں لامرکزیت کی اشاعت جاری رہے اور وہ ایک مرکز سے وابستہ نہ ہو سکیں ان کی قوتیں منتشر ہوجائیں۔ ان کی متحدہ طاقت فنا ہوجائے۔ ان کا کوئی تعلیمی مرکز نہ رہے اور جو مرکز نہ ہوگا تو دنیا بھر کی مسجدیں خود بخود ذکر الٰہی سے خالی ہوجائیں گی۔ کوئی قوت ان کی نگران کار نہ ہوگی۔ ان کا نظام قائم نہ رہ سکے گا۔ پھر ان سے بڑھ کر بھی کوئی دوسرا شخص ظالم ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مسجد یعنی عبادت گاہ میں قدم رکھتے ہوئے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان پر عذاب نہ نازل ہوجائے ۔ آخر میں ان کا انجام بتا دیا کہ وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں بھی عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے اور یہ گویا ایک قسم کی تحدی تھی یعنی چیلنج اور وہ بالکل اسی طرح ہوا جس طرح قرآن کریم نے اعلان کیا تھا اور اسی کو اسلام میں معجزہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ غیر مسلم اقوام نے قرآن کریم کی اس حقیقت کو سمجھا اور ” اقوام متحدہ “ کی داغ بیل ڈال کر مسلمانوں کو انکے مرکز سے غافل کردیا۔ افسوس کے آج عالم اسلام نے اس مرکزی حیثیت کو ختم کردیا بیت اللہ صرف رسومات حج کے لئے رہ گیا اور افادیت مرکزیت اور حج کو بالکل بھلا دیا گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مکہ مکرمہ عالم اسلامی کے لئے مرکز کا کام دیتا۔ تمام دنیا کے لئے اس جگہ سے ہدایات جاری ہوتیں ۔ مسلمانوں کے سارے ممالک کا امیر المؤمنین یہیں ہوتا ، تمام دنیا کے لیے اس جگہ سے ہدایات جاری ہوتیں۔ مسلمانوں کے سارے ممالک کی حیثیت اسلامی صوبہ جات کی سی ہوتی۔ پوری دنیائے اسلامی کا امیر اس جگہ سے کنٹرول کرتا۔ ہر ملک کا حکمران اسی جگہ سے منتخب کر کے بھیجا جاتا۔ ہر اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی خرابیوں کا ازالہ اسی جگہ سے کیا جاتا۔ تمام ممالک اسلامی کی نظریں اسی مرکز کے ساتھ وابستہ ہوجاتیں۔ ہر کمی کو یہاں سے پورا کیا جاتا اور ہر مرض کا علاج اسی مرکز میں کیا جاتا ہر اسلامی مملکت کی ضروریات اسی مرکز سے پوری ہوتیں اور ہر اسلامی ملک اس مرکز کے سامنے جوابدہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ہماری حالت یہ نہ ہوتی۔ ایک ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم کتنے بھی کمزور ہوئے لیکن جب تک ہمارا مرکز ایک رہا دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ جب سے ہمارا مرکز ویران ہوا اور پھر مرکز کی مرکزیت ختم کر کے رکھ دی گئی ہم ذلیل و خوار ہوگئے۔ قومی مرکز کی بےحرمتی قوم کی موت کے مرادف ہے جو گویا دنیاوی رسوائی ہے : 215: یہود کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ قومی طور پر کئی بار مر چکے ہیں اور اب نزول اسلام کے بعد بھی ان کی موت یقینی ہے۔ زمانہ اسلام سے پہلے جب یہودیوں نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالا تو روم کے نصاریٰ نے ان سے انتقام لینے کی خاطر عراق کے مجوسی بادشاہ بخت نصر کے ساتھ مل کر اپنے بادشاہ طیطوس کی سرکردگی میں شام کے بنی اسرائیل پر حملہ کر کے ان کو قتل و غارت کیا اور تورات کے نسخے جلا دیئے۔ بیت المقدس میں نجاسات اور خنزیر ڈال دیئے اس کی عمارت کو خراب و ویران کردیا اور بنی اسرائیل کی شان و شوکت کو پامال کر کے ختم کردیا ۔ نبی کریم ﷺ کے وقت تک بیت المقدس اس طرح ویران و منہدم پڑا تھا۔ فاروق اعظم ؓ کے عہد میں جب شام و عراق فتح ہوئے تو آپ کے حکم سے بیت المقدس کو دوبارہ تعمیر کرایا گیا۔ زمانہ دراز تک پورا شام و مصر ، بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا پھر ایک عرصہ کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا اور تقریباً سو سال یورپ کے عیسائیوں کا اس پر قبضہ رہا۔ تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے پھر اس کو فتح کیا۔ رومی ، نصاریٰ کی اس گستاخانہ حرکت پر کہ تورات کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب و ویران کیا ، اس کی بےحرمتی کی۔ اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب مشرکین مکہ نے رسول کریم ﷺ کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مسجد حرام میں داخل ہونے اور طواف کرنے سے روک دیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر (رح) نے پہلی روایت کو اور ابن کثیر نے دوسری کو ترجیح دی ہے۔ بہر حال شان نزول کچھ ہو۔ مفسرین پہلے واقعہ کو ترجیح دیں یا دوسرے کو ، بہر حال اس کا حکم عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت سے خاص بیت المقدس کا نام لینے کی بجائے ” مساجد اللہ “ فرمایا گیا ہے لہٰذا تمام مساجد پر اس کا حکم عام ہے اور مفہوم آیت یہ ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی مسجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے سے روکے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے مسجد ویران ہو تو وہ یقیناً بہت بڑا ظالم ہے۔ بد قسمتی سے آج مسلمانوں کی گروہ بندی کی لعنت نے ان کو یہود و نصاریٰ سے بھی چند قدم آگے لا کھڑا کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی مسجدوں کو برباد کرنے پر تل گئے ہیں۔ مسجدیں گویا اللہ کی یاد کے لئے نہیں تعمیر کی گئیں بلکہ اپنی اپنی فرقہ بندی کی پختگی کے لئے تعمیر ہوئی ہیں اور ایسا وقت آیا کہ بعض مسجدوں کے دروازوں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ ” اس مسجد میں کوئی وہابی ، نجدی اور دیوبندی داخل نہیں ہو سکتا۔ “ سب لوگوں نے اپنی اپنی پہچان کے لئے مسجدوں کو گھات گاہ بنا لیا ہے۔ اس آیت میں مسجد کی ویرانی اور بربادی کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب سے ممانعت کردی گئی ۔ پیش گوئی کے طور پر کہہ دیا گیا کہ جو شخص بھی مسجد کی ویرانی اور بربادی کی کوئی صورت کرے گا وہ یقیناً دنیا میں بھی رسوا ہوگا اور آخرت بھی اس کی برباد ہوگی۔
Top