Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 67
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر ناگہاں آموجود ہو اور ان کو خبر تک نہ ہو
(43:66) ہل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیہم بغتۃ وہم لاتشعرون۔ ہل استفہام انکاری ہے۔ کلام عرب میں ینظرون کا استعمال بمعنی ینظرون معروف ہے۔ مثلا فہل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیہم بغتۃ فقد جاء اشراطھا (47:18) سو یہ لوگ بس قیامت کے ہی انتظار میں ہیں کہ ان پر دفعۃ آپڑے سو اس کے آثار تو پیدا ہی ہوچکے ہیں۔ اور ما ینظرون الا صیحۃ واحدۃ تاخذھم وہم یخصمون (36:49) یہ لوگ بس ایک سخت آواز کے منتظر ہیں وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ لوگ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہوں گے۔ وغیرہ۔ الا الساعۃ میں الساعۃ مستثنیٰ ہے جس کا مستثنیٰ منہ محذوف ہے جو حالت مفعول میں واقع ہے لہٰذا مستثنیٰ کا اعراب اسی کی موافقت میں منصوب ہے ان مصدریہ ہے اور بغتۃ حرف فجائیہ ہے یکایک ، اچانک، ایک دم۔ وہم لا یشعرون ۔ جملہ حالیہ ہے لایشعرون مضارع منفی جمع مذکر غائب ہے۔ شعور باب نصر مصدر۔ وہ شعور نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہی نہیں۔ ضمیر فاعل کا مرجع قریش میں یا وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ترجمہ : یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر دفعتہ آن پڑے اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ تفسیر ماجدی میں ہے : ذکر منکرین قیامت کا ہے یہ منکرین اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ قیامت یک بیک آواقع ہوگی
Top