Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 87
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَۙ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : پوچھو تم ان سے مَّنْ خَلَقَهُمْ : کس نے پیدا کیا ان کو لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ : البتہ ضرور کہیں گے اللہ تعالیٰ نے فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ : تو کہاں سے وہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔ پھرائے جاتے ہیں
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ خدا نے تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
(43:87) ولئن : واؤ عاطفہ لام تاکید کے لئے اور ان شرطیہ۔ اور اگر۔ سئلتھم : (اگر) تو ان سے دریافت کرے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب ان کافروں کے لئے ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتے تھے۔ لئن سئلتھم من خلقھم جملہ شرط۔ لیقولن اللّٰہ جواب شرط۔ لیقولئن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ۔ یا لام جواب شرط کے لئے اور مضارع بانون تاکید ثقیلہ صیغہ جمع مذکر غائب وہ ضرور بالضرور کہہ دیں گے۔ فانی میں فاء جزائیہ ہے ای اذا کان الامر کذلک (جملہ شرط محذوف) یؤفکون ۔ (جواب شرط۔ انی بمعنی کیف۔ کیونکر، کیسے۔ یؤفکون مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ افک (باب ضرب) مصدر پھیرے جاتے ہیں ۔ کیسے بہکے پھرتے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے اور اقرار کرتے ہوئے بھی کہ ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر بھی اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کی طرف کیوں پھرے جاتے ہیں۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو اسی لئے ان ہواؤں کو جو اپنا صحیح رخ چھوڑ دیں مؤتفکۃ کہا جاتا ہے اور قرآن مجید میں ان بستیوں کو جن کو گناہ کے کام کرنے کرنے پر الٹ دیا گیا تھا مؤتفکات کہا ہے۔ جیسے والمؤتفکات بالخاطئۃ (69:9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوا ہوتا ہے اسی لئے اس پر بھی افک کا لفظ بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے ان الذین جاء وا بالافک عصبۃ منکم (24:11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے۔
Top