Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
(48:4) ھو ای اللّٰہ۔ السکینۃ۔ تسکین، تسلی خاطر۔ اطمینان۔ سکون سے بروزون فعلیہ مصدر ہے جو اسم کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہ عزیمۃ ہے جو عزم یعزم کا مصدر ہے اور بطور اسم بمعنی ارادہ کی پختگی۔ مستقل مزاجی ہے۔ سید محمد مرتضی زبیدی لکھتے ہیں :۔ سکینہ وہ اطمینان اور سکون ، چین، قرار ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے قلب میں اس وقت نازل فرماتا ہے جب کہ وہ ہولناکیوں کی شدت سے مضطرب ہوجاتا ہے پھر اس کے بعد جو کچھ بھی اس پر گزرے وہ اس سے گھبراتا نہیں ہے۔ یہ اس کے لئے زیادتی ایمان ، یقین میں قوت اور استقلال کو ضروری کردیتا ہے ، اسی وجہ سے حق سبحانہ نے ” یوم الغار “ اور ” یوم حنین “۔ جیسے قلق و اضطراب کے مواقع پر اپنے رسول اور مؤمنین پر اس کے نازل ہونے کی خبر دی ہے۔ یوم الغار کے موقع پر فرمایا :۔ فانزل اللّٰہ سکینۃ علیہ (9:40) اور یوم حنین کے موقع پر فرمایا :۔ فانزل اللّٰہ سکینۃ علی رسولہ وعلی المؤمنین (9:26) ۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ :۔ سکینہ سے مراد ہے اللہ کے حکم کی تعمیل پر ثنات اور اطمینان۔ یعنی مسلمانوں کے دلوں کو اس مقام پر ثبات و اطمینان فرمایا جہاں دلوں میں تردد پیدا ہوجاتا اور قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ لیزدادوا : لام تعلیل کا ہے یزدادوا مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) جمع مذکر غائب ” ازدیار (افعال) مصدر۔ تاکہ بڑھ جائیں۔ قوی ہوجائیں۔ ایمانا۔ تمیز ۔ ازروئے ایمان۔ تاکہ اپنے پہلے ایمان کے ساتھ ان کے عقیدہ کا جماؤ اور دل کا اطمینان اور بڑھ جائے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سکینہ عطا فرمانے کے بعد اپنے پہلے ایمان میں پختگی اور ثابت قدم ہیں اور بڑھ جائیں۔ اسی مضمون کی اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں مثلا (1) واذا تلیث علیہم بایتہ زادتھم ایمانا (8:2) اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ وغیرہ۔ فائدہ : تفسیر حقانی میں لیزدادوا کے تحت مندرج ہے۔ علماء کی ایک جماعت اس آیت سے استدلال کرکے یہ کہتی ہے کہ ایمان کم و زیادہ ہوتا ہے۔ مگر محققین جن میں امام اعظم ابوحنیفہ بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے وہ کیفیت زیادہ یا کم نہیں ہوتی پھر آیات و احادیث میں جو زیادہ ہونا آیا ہے اس سے علم الیقین و عین الیقین مراد ہے یا بااعتبار اس کے کہ جس پر ایمان لایا یعنی پہلے وہ باتوں پر ایمان لایا تھا پھر تیسری نازل ہوئی اس پر بھی ہوا۔ چناچہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس بارے میں بعض آثار بھی نقل کئے ہیں۔ تفسیر ماجدی کے حاشیہ میں مندرج ہے :۔ لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم : یعنی خاص اس سکینت قلب کے پیدا ہوجانے سے اہل ایمان کے قلب میں اور زیادہ انشراح اور ان کے نور باطنی میں اور زیادہ نور انیت پیدا ہوگئی اور ایمان استدلالی و برہانی کے ساتھ ساتھ ایمان عیانی بھی نصیب ہوگیا۔ فیحصل لہم الایمان العیانی والایمان الاستدلالی البرھانی (روح المعانی) طاعت میں یہ خاصہ بھی ہے کہ ہر نئے امر اطاعت سے نور ایمان میں ترقی ہوتی رہتی ہے اور یہ جو ہمارے امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ الایمان لایزدادوا لاینقص۔ (ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے نہ زیادتی) سو اس سے ان کی مراد ذات ایمان یا نفس ایمان سے ہے جو قابل تجزی نہیں ہے۔ باقی اس کے اوصاف و آثار میں کمی بیشی تو روزمرہ کا مشاہدہ ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔ صاحب تفسیر اضواء البیان رقمطراز ہیں :۔ والحق الذی لاشک فیہ ان الایمان یزید وینقص کما علیہ اہل السنۃ والنجماعۃ (اور حق بات یہ ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان پڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ ہر دو گروہ نے آیت کا ترجمہ اپنے اپنے طور پر کیا ہے۔ وللّٰہ جنود السموت والارض واؤ عاطفہ اور للّٰہ میں لام تملیک کے لئے ہے یعنی آسمان اور زمین کے تمام لشکر اسی کے زیر فرمان ہیں۔ اسی کے تسلط میں ہیں۔ ان آسمانوں اور زمین کے لشکر کے متعلق فرمایا :۔ وایدہ بجنود لم تروھا (9:40) اور اس کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وما یعلم جنود ربک الا ھو (74:31) اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگرچہ بجنود لم تروھا سے مراد سب نے فرشتے لئے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لشکروں میں صرف فرشتے ہی ہوں فرشتوں کے علاوہ اور بیشمار لشکر زمین و آسمان موجود ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ہم ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی نوعیت اور ان کا شمار ہمارے حد حساب سے باہر ہے اور ان کو صرف وہی اللہ ہی جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ صلح حدیبیہ اس وجہ سے نہیں کی گئی تھی کہ مسلمانوں کی نفری تعداد میں کم تھی۔ یا سازوسامان میں مسلمان کافروں سے کم تھے کیونکہ اگر یہ وجہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ جس کے تسلط میں ارض و سماء کے بیشمار لشکر ہیں جو ہمارے علم و نظر سے بالاتر ہیں ان کو بروئے عمل لاکر وہ کفار کو تباہ و برباد کرسکتا تھا۔ لیکن یہ اس کے علم و حکمت کا تقاضا تھا کہ ایسے ہو۔ اس کی حکمت بھی اسی کو معلوم ہے منجملہ اس کے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے اپنے نیک بندوں کا امتحان لینا بھی مقصود ہو کہ کیسے ثابت قدم رہتے ہیں۔ علیما حکیما دونوں کان کی خبر ہیں۔
Top