Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 4
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ١ؕ فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : ہم نے نہیں بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر بِلِسَانِ : زبان میں قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی لِيُبَيِّنَ : تاکہ کھول کر بیان کردے لَهُمْ : ان کے لیے فَيُضِلُّ : پھر گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جو کو چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اور ہم نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے وہ اپنی ہی قوم کی زبان بولنے والے تھے تاکہ وہ اپنی قوم کیلئے بیان کریں۔ پھر اللہ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت دے۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کی زبان بولنے والے تھے : اس آیت میں ایک بہت اہم بات بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ سب اپنی اپنی قوموں کی زبان میں ان سے بات کرتے تھے اور اپنی قوم کی زبان میں انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاتے اور بیان فرماتے تھے ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے ان کی بیوی حوا بھی تشریف لائیں اور ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی بھاری تعداد میں مرد اور عورت پیدا فرمائے۔ (وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ) حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت بڑھتی رہی پھیلتی رہی قبیلے بنتے چلے گئے مختلف زبانیں پیدا ہوتی چلی گئیں یہ زبانوں اور صورتوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں سورة روم میں فرمایا (وَمِنْ اٰیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَاْلَارْضْ وَاخْتِلَافِ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ ) (اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں کا اور زمین کا پیدا فرمانا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بیشک اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے نبوت اور رسالت کا سلسلہ بھی جاری فرمایا ہدایت دینے کے لیے انبیاء کرام اور رسل عظام ( علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تعلیم و تبلیغ اور افادہ و استفادہ کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہی ہے جب زبانیں مختلف ہیں اور لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا اور باری تعالیٰ شانہ کے احکام بیان کرنا اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنے پیغمبروں کے سپرد فرمایا تو ظاہر ہے کہ ہر نبی کو وہی زبان بولنا ضروری ہوا جو زبان ان کے مخاطبین کی تھی (لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ) میں اس بات کو بیان فرمایا کہ جو بھی نبی آیا اس نے اپنی قوم سے انہیں کی زبان میں باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام آباد ہوگئے تھے ان کا وطن سابق بابل کے قریب تھا وہاں جو بھی زبان بولتے ہوں ہجرت کر کے جب شام میں تشریف لے آئے اور وہاں کے لوگوں میں شادی کرلی اور ان لوگوں کی زبان سیکھ لی تو نبوت سے سر فراز ہو کر انہی کی زبان میں تبلیغ فرماتے اور حق کی دعوت دیتے تھے ‘ مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اپنی قوم کی زبان کے علاوہ دوسری زبان نہیں جانتے تھے ‘ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کی طرف بعثت ہوئی ان کی زبان جانتے تھے بعض لوگوں نے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں اشکال کیا ہے کہ وہ دوسرے ملک سے آکر آباد ہوئے تھے پھر آیت کے عموم میں کیسے داخل ہوئے یہ اشکال کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ان کی زبان جاننا دعوت و تبلیغ کے لیے کافی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت عامہ اور عربی زبان میں قرآن نازل ہونے اور نماز و اذان مشروع ہونے کی حکمت : سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے وہ کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے تمام انسانوں کی طرف ان کی بعثت نہیں ہوتی تھی کما قال النبی وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ (صحیح بخاری) آپ کی بعثت سارے زمانوں کے لیے سارے جنات کیلئے اور سارے انسانوں کے لئے ہے چونکہ آپ کے مخاطبین اولین اہل عرب ہی تھے اس لیے آپ بھی اپنی قوم کی زبان میں خطاب فرماتے تھے اور قرآن مجید بھی عربی زبان میں نازل ہوا پھر عربی زبان کی بلاغت اور لطافت ایسی ہے جو دوسری کسی زبان میں نہیں ہے اس میں الفاظ بھی ثقیل نہیں ہیں جیسا کہ انگریزی اور سنسکرت وغیرہ میں ہیں اور اس زبان کا سیکھنا بھی آسان ہے اور معجزہ کی جو شان عربی زبان میں ہے وہ دوسری زبانوں میں نہیں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے محمد عربی کو خاتم الانبیاء بنایا اور اپنی آخری کتاب بھی عربی زبان میں نازل فرمائی چونکہ سارے انسان خاتم الانبیاء ﷺ کی امت دعوت ہیں اس لیے امت کی وحدت قائم رکھنے کے لئے کسی ایک ہی زبان میں آخری کتاب کا نازل ہونا ضروری تھا اور اپنی لطافت فصاحت و بلاغت اور معجزہ ہونے کے اعتبار سے عربی زبان ہی کو برتری حاصل تھی اور اب بھی ہے اس لیے عربی ہی کو ساری امت کی مرکزی زبان قرار دیا گیا اگر ہر ہر علاقے کے رہنے والوں کی زبانوں میں الگ کتاب اللہ ہوتی تو پوری امت کی مرکزیت اور وحدت کی صورت نہ بنتی جیسا کہ قرآن مجید کے معانی کا جاننا اور سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا مطلوب ہے اسی طرح اس کے الفاظ کا یاد رکھنا پڑھنا پڑھانا تلاوت کرنا بھی مطلوب ہے جیسا اس کے احکام پر عمل کرنے سے ثواب ملتا ہے ایسا ہی اس کے الفاظ کی تلاوت کرنے پر بھی اجر ملتا ہے۔ زبان کی سلاست اور لطافت جو عربی زبان میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اسے حفظ کرلیتے ہیں اور بوڑھے لوگ بھی یاد کرلیتے ہیں اس کے حروف بھی ایسے ہیں جنہیں سب ادا کرسکتے ہیں (اگرچہ بعض حروف کی ادائیگی میں ذرا محنت اور مشق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ادا سب ہوجاتے ہیں) برخلاف اس کے بعض زبانوں کے حروف ایسے ہیں کہ دیگر علاقوں کے باشندوں سے ادا نہیں ہوتے مثلاً (ڑ) اور (ڈ) اہل عرب ادا نہیں کرسکتے اس لیے عربی زبان ہی کو اسلامی عربی زبان قرار دیا گیا قرآن بھی اسی زبان میں نازل ہوا نماز بھی اسی زبان میں پڑھی جاتی ہے اور اذان بھی اسی زبان میں دی جاتی ہے۔ پھر چونکہ اہل استطاعت پر حج کرنا بھی فرض ہے اس کے لیے مکہ معظمہ آنا پڑتا ہے اور یہاں اہل عرب سے واسطہ پڑنا ضروری ہے اس لیے بھی مسلمانوں کے لیے مرکزی عالمی زبان عربی ہی ہونا ضروری ہوا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ذمہ داری حق پہنچانے اور حق سمجھانے کی تھی رہا ہدایت دینا تو یہ اللہ جل شانہ کی قضاء وقدر اور ارادہ سے متعلق ہے اسی لئے فرمایا (فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ) یعنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کی زبانوں میں بیان فرماتے تھے اس کے بعد اللہ نے جس کو چاہا گمراہی پر باقی رکھا اور جس کو چاہا ہدایت دی قال صاحب الروح ص 182 ج 13 کانہ قیل فبینوا لھم فاضل اللہ تعالیٰ من شاء اضلا لہ وھدی من شاء ھدایتہ حسب ما اقتضتہ حکمتہ تعالیٰ البالغۃ۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) اور وہ غالب ہے وہ جو چاہے وہی ہوگا اور وہ حکمت والا بھی ہے وہ اپنی حکمت کے موافق فیصلے فرماتا ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں۔
Top