Anwar-ul-Bayan - Adh-Dhaariyat : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
(9:43) عرضا۔ روبرولانا۔ پیش کرنا۔ پیش افتادہ سامان۔ سامنے رکھا ہوا مال و متاع ۔ یہاں عرضا قریبا بمعنی سہل الحصول مال ہے سفرا قاصدا۔ قریبی سفر۔ قصد سے جس کا معنی ہے وسطی راستہ پر چلنا۔ القصد بعضی المعتدل۔ لا تبعوک۔ لام تاکید۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ ضرور تیری اتباع کرتے ۔ تیرے پیچھے چلتے۔ شقۃ۔ مسافت۔ بقول راغب وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے۔ بعدت علیہم الشقۃ۔ مسافت ان کو دور دراز نظر آئی۔ کٹھن سفر ان کو بہت دور کا سفر نظر آیا۔ سیحلفون باللہ۔ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر (کہیں گے) لواستطعنا۔ اگر ہمیں استطاعت ہوتی۔ اگر ہمیں طاقت ہوتی۔ (9:43) عفا اللہ عنک۔ (اے محمد) تجھے اللہ بخشے۔ اللہ تجھے معاف فرمائے۔ خدا تیرا بھلا کرے عفو کے اصل معنی مٹانا ہیں جیسے فعت الریح الدار (ہوا نے گھر کے نشانات مٹا دئیے) اور عفوت عنہ کے معنی ہیں قصدت ازالۃ ذنیہ صارفا عنہ میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کے گناہ مٹانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن شیخ محمد بن طیب فارسی شارح قاموس سے منقول ہے کہ :۔ عفو کا بغیر گناہ کے نہ ہونا گو عرف میں مشہور ہوگیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ عفو بمعنی عدم الزوم (لازم نہ ہونا) بھی ہوتا ہے۔ اور اس کے اصل معنی ترک کے ہیں اور اسی پر اس کے سارے معانی گھومتے رہتے ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے واحدی ؓ سے نقل کیا ہے کہ عفو کے اصل معنی زیادہ ہونے کے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قل العفو (2:219) کہہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اور حتی عفوا (7:95) یعنی جو ان کی تعداد تھی اس سے زیادہ ہوگئے۔ ان کے اقوال کی روشنی میں عربی محاورہ عفا اللہ سے کسی گناہ کا سرزد ہونا لازم نہیں آتا۔ (بقول شیخ محمد بن طیب مذکورہ بالا) حافظ کا شعر ہے :۔ عفا اللہ عن شر النوائب جزاک اللہ فی الدارین خیرا (اللہ تمہیں زمانہ کی گردشوں کے شر سے بچائے۔ اور دارین میں نیک اجر دے) ۔ اور واحدی کے مطابق اس کا ترجمہ ” اللہ تیرا بھلا کرے “ بھی ہوسکتا ہے۔ شان نزول اس آیت کا یہ ہے کہ جنگ تبوک کے موقعہ پر موسم کی شدت اور مسافت کی مشقت کی وجہ سے بہت سوں نے شرکت سے معذرت پیش کی جو حضور نبی کریم ﷺ نے تقریبا ہر ایک منظور فرمالی۔ اس کی متعدد معقول وجوہات تھیں :۔ (1) حضور اکرم ﷺ کی ذاتی کریم النفسی۔ (2) معقول وجوہات کی بناء پر استثناء سے انکار قرین انصاف نہ تھا۔ (3) عسکری پالیسی کے لحاظ سے بھی ایسے اشخاص کو جبرا ساتھ لیجانا خلاف مصلحت تھا جو دلی جذبہ کے ساتھ جہاد میں شرکت کے متمنی نہ لہٰذا خداوند تعالیٰ کا قول لم اذنت لہم حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین۔ رسول مقبول ﷺ پر کوئی سرزنش نہ تھی بلکہ اس سے مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو سچے اور جھوٹوں میں تمیز ہوجاتی۔ اسی وجہ سے اس استفسار سے پہلے عفا اللہ عنک کے الفاظ ارشاد فرما دئیے۔ بعض کے نزدیک تو یہ کلمات اظہار تکریم و تعظیم کے لئے ہیں َ اہل عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی عزت و توقیر کا اظہار مقصود ہوتا تو اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز ایسے ہی کلمات (عفاک اللہ) سے کیا کرتے تھے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ان ذلک یدل علی مبالغۃ اللہ فی تعظیمہ وتوقیرہ یعنی ان کلمات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعظیم و توقیر میں مبالغہ کا اظہار فرمایا ہے۔ حتی یتیبین۔ سے قبل وہلا توقفت۔ محذوف ہے۔ اور کیوں نہ تو نے توقف کیا (ان کے پیچھے رہنے کی اجازت دینے میں) یتبین۔ مضارع واحد مذکر غائب تبین (تفعل) مصدر۔ تجھ پر ظاہر ہوجائے۔ کھل کر سامنے آجائے۔
Top