Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ بخشے تجھ کو کیوں رخصت دے دی تو نے ان کو یہاں تک کہ ظاہر ہوجاتے تجھ پر سچ کہنے والے اور جان لیتا تو جھوٹوں کو6 
6  منافقین جھوٹے عذر کر کے جب مدینہ میں ٹھہرے رہنے کی اجازت طلب کرتے تو آپ ان کے کید و نفاق سے اغماض کر کے اور یہ سمجھ کر کہ ان کے ساتھ چلنے میں فساد کے سوا کوئی بہتری نہیں اجازت دیتے تھے اس کو فرمایا کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ اس وقت ظاہر ہوجاتا کہ انہوں نے اپنے نہ جانے کو کچھ آپ کی اجازت پر موقوف نہیں رکھا ہے جانے کی توفیق تو انہیں کسی حال نہ ہوتی۔ البتہ آپ کے روبرو ان کا جھوٹ سچ کھل جاتا۔ پس اجازت دینا کوئی گناہ نہ تھا، البتہ نہ دینا مصالح حاضرہ کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہوتا۔ اس اعلیٰ و اکمل صورت کے ترک کی وجہ سے خطاب کو " عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ " سے شروع فرمایا۔ عفو کا لفظ ضروری نہیں کہ گناہ ہی کے مقابلہ میں ہو۔ بعض محققین نے عفا اللہ عنک " اس جملہ کو صدر کلام میں محض دعا و تعظیم کے طور پر لیا ہے جیسا کہ عرب کے محاورات میں شائع تھا، مگر سلف سے وہ ہی منقول ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ اور لفظ " لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ " اس کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top