Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ تجھے معاف فرمائے تو نے ایسا کیوں کیا کہ انہیں رخصت دے دی ؟ اس وقت تک رخصت نہ دی ہوتی کہ تجھ پر کھل جاتا کون سچے ہیں اور تو معلوم کرلیتا کون جھوٹے ہیں ؟
کچھ لوگوں نے رخصت طلب کی اور آپ ﷺ نے ان کو رخصت دے دی : 63: اس آیت میں گویا پانچویں قسم کے لوگوں کا بیان شروع ہوا جو عرف عام میں منافق کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ جن کے لئے غزوہ تبوک کے معاملہ ایک آخری اور فیصلہ کن آزمائش ثابت ہوا تھا اس نے ظاہر داری اور نمائش کے سارے پردے چاک کردیئے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ اس سورت کو الفاضحہ کے نام سے بھی پکارتے تھے کیونکہ اس نے منافقوں کے بھدے کھول کر ان کی فضیحت کردی۔ منافقوں کے متعلق آپ پیچھے سورة آل عمران کی آیت 173 میں پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مومنوں سے ممتاز کر کے آشکارا کردینے کا وعدہ فرمایا تھا چناچہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ایسے مرحلے پیش آتے رہے جن میں نفاق کے چہروں کو بےنقاب ہونا پڑا اور اس سلسلہ کا آخری مرحصہ یہی غزوہ تبوک تھا۔ جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ اس موقعہ پر ناموافق حالات سے عام مسلمانوں کی سرگرمیاں بھی ابتدا میں کچھ دھیمی ہی رہی تھیں لیکن منافقوں کی حالت بالکل دوسری تھی۔ یہ حکم ان کے لئے پیام موت تھا اس لئے حیلے بہانے تراشنے لگے ہر شخص ایک نیا بہانہ گھڑ کر لاتا اور کہتا کہ ویسے تو مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں مگر مشکل ہے یہ کہ فلاں کام ناگزیر ہوگیا ہے ، فلاں بات ناقابل حل ہو رہی ہے ، فلاں الجھاؤ سلجھایا نہیں جاسکتا اب جیسا کہ آپ ﷺ کا حکم ہو اور اس طرح کی باتوں سے مقصود ان کا یہ تھا کہ جھوٹی سچی مجبوریاں سنائیں گے تو پیغمبر اسلام ﷺ کا اخلاق ایسا نہیں ہے کہ کسی کو مجبور کر کے لے جانا چاہیں۔ آپ ﷺ کی رحمت در آفت ہمیشہ رسی ڈھیلی چھوڑ دیتی تھی لہٰذا وہ یہ عذر پیش کرتے وقت یہ خیال رکھتے کہ ایسا کرنے سے آپ ہمیں اجازت دے دیں گے کہ چلو اگر تم مجبور ہو تو نہ چلو۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ پمبرر اسلام ! ان کے حیلے بہانے سنتے اور یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ بخوشی چلنے کے لئے تیار نہیں ، کہہ دیتے اچھا تمہیں رخصت ہے۔ فرمایا اگر رخصت نہ دی ہوتی تو آپ پر ان کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی : 64: فرمایا اگر آپ نے ان کو یہ رخصت نہ دی ہوتی تو ان کی پوزیشن مزید کھل کر سامنے آجاتی اب انہوں نے اپنا بھرم قائم رکھا اور اس رخصت کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے اور ان میں سے بعض ایسے ہی تھے جنہوں نے بات بنانے کے لئے یہ بھی کہا کہ یہ مال حاضر ہے۔ آپ لے لیں لیکن ہمارا نکلنا اس وجہ سے مشکل ہے اور اس کے ساتھ بھی کوئی فرضی دشواری ظاہر کردیتے جیسا کہ پیچھے آپ پڑھ چکے کہ اگر کوئی ایسی بات ہوتی کہ فوری فائدہ دکھائی دیتا اور سفر بھی درکار نہ ہوتا تو ان کے نفاق کو چھپنے کی آڑ مل جاتی جیسی کہ اس سے قبل ان کو بار بار مل چکی تھی۔ فرمایا اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ فوراً تیرے پیچھے قدم اٹھا لیتے اور ظاہر میں حکم کی تعمیل کرتے اور دل میں دنیا کی طمع اور مکر و عذر کی چالیں ہوتیں جیسا کہ انہوں نے احد وغیرہ میں کیا تھا مگر اس وقت انہیں مشکل یہ آپڑی کہ معاملہ دور کا نکل آیا کہ عرب سے باہر دور دراز کا سفر در پیش تھا اور سفر کی مشقتیں بھی بڑی ہی سخت تھیں اور حالات کا بھی کچھ پتہ نہ تھا اس لئے اس موقعہ پر وہ بےبس ہو کر رہ گئے اور دکھاوے کے لئے بھی ساتھ نہ نکل سکے اور اللہ کی طرف سے بھی یہی فیصلہ کن آزمائش تھی جس نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا اور جب کبھی راہ حق میں کوئی سخت آزمائش آجاتی ہے تو منافقوں کے چہرے اس طرح بےنقاب ہوجایا کرتے ہیں۔ اس لئے زیر نظر آیت میں پیغمبر اسلام ﷺ کو متنبہ فرما دیا گیا کہ رحمت و درگزر کی بھی ایک حد ہوتی ہے خیال رہے کہ اب یہ اس کے مستحق نہیں رہے کہ ان کی رسی اتنی ڈھیلی چھوڑ دی جائے۔ آپ ﷺ ذرا توقف کرتے تو ان کا جھوٹ اور سچ بالکل واضح ہوجاتا اور آپ کو معلوم ہوجاتا کہ یہ عذر ان کے بالکل غلط اور جھوٹے تھے اور اس طرح بات کھول کر ان کی پوزیشن بالکل واضح ہوجاتی۔
Top