Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور اسی نے زمین پر پہاڑ (بناکر) رکھ دیئے کہ تم کو لے کر کہیں جھک نہ جائے اور نہریں اور ستے بنادیئے تاکہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک (آسانی سے) جا سکو۔
15۔ 16۔ تفسیر عبد الرزاق میں حسن بصری سے اور تفسیر ابن جریر میں قیس بن عباس سے روایت ہے کہ پہلے پہل اللہ نے پانی پر زمین بچھائی تو زمین ہلتی تھی فرشتوں نے آپس میں چرچا کیا کہ زمین پانی پر کیوں کر ٹھہرے گی جب اللہ نے زمین پر پہاڑ ٹھونک دئیے تو پھر زمین کا ہلنا بند ہوگا اور فرشتوں کو معلوم بھی نہ ہوا کہ اللہ نے کب اور کس چیز کے یہ پہاڑ بنا دئیے 1 ؎۔ ایک جگہ یہ بات اوپر گزر چکی ہے کہ عبد الرزاق بن ہمام نے نابینا ہونے سے پہلے جو کتابیں تالیف کی ہیں ان کو امام بخاری نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس لئے تفسیر عبد الرزاق کی یہ حسن بصری کی روایت معتبر ہے یہ قیس بن عباد بھی جلیل القدر تابعیوں میں ہیں اور تفسیر ابن جریر کی سند بھی معتبر ہے ترمذی میں انس بن مالک ؓ کی اس مضمون کی جو ایک روایت ہے اگرچہ سلیمان بن ابی سلمان حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا پروردہ اس روایت کی سند میں نامعلوم الحال ہے لیکن اوپر کی روایتوں سے اس انس بن مالک ؓ کی روایت کو بھی کسی قدر تقویت ہوجاتی ہے ان روایتوں کے موافق ان تمید بکم کی اصل ان لا عید بکم ہے جس کے حاصل معنے وہی ہیں جو حسن بصری (رح) اور قیس بن عباد (رح) کے قول کے موافق اوپر بیان کئے گئے ہیں اگرچہ یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہ تھی کہ بغیر پہاڑوں کے میخیں ٹھونکنے کے وہ زمین کو پانی پر مضبوط جما دیتا لیکن پہاڑوں کے پیدا کرنے میں طرح طرح کی حکمتیں تھیں سونا چاندی اور قیمتی چیزیں اکثر قسم کی دوائیں پہاڑوں میں پیدا ہوتی ہیں ندیاں اور چشمے پہاڑوں میں سے نکلتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کیا اور فرشتوں کے ایک خاص گروہ کو پہاڑوں کی چیزوں کے انتظام کے لئے مقرر کیا جس گروہ کے سردار کا لقب ملک الجبال ہے چناچہ صحیح بخاری کی حضرت عائشہ ؓ کی روایت 2 ؎ میں یہ ذکر تفصیل سے ہے سورت الانبیاء میں آوے گا کہ پہاڑوں کے بیچ میں اللہ تعالیٰ نے گھاٹیاں رکھیں ہیں۔ تاکہ پہاڑوں کے سب سے راستہ بند ہو سبلا لعلکم تھتدون کا یہاں بھی یہی مطلب ہے وعلمت وبالنجم ھم یھتدون حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قوال کے موافق آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر یہ ہے کہ دن کو پہاڑ اور رات کو تارے ایسی علامتیں ہیں جن کے سبب سے مسافروں کو سیدھا راستہ جنگل اور دریا میں معلوم ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود کی حدیث گزر چکی ہے 3 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی راحت کیلئے یہ سب چیزیں پیدا کیں ہیں تو یہ بڑے وبال کی بات ہے کہ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کیا جاوے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 565 ج 2 و تفسیر ابن جریر ص 90 ج 14۔ 2 ؎ صیح بخاری ص 488 ج 1 باب بعد باب ذکر الملائکۃ۔ 3 ؎ یعنی اوپر کی آیات کی تفسیر میں۔
Top