Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور اس نے زمین میں پہاڑ قائم کردیئے کہ وہ تمہیں لے کر جھک نہ پڑے اور اس نے نہریں رواں کردیں اور راستے نکال دیئے تاکہ تم اپنی منزل تک (بآسانی) پہنچو
اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا ہے تاکہ وہ ہچکولے نہ کھائے : 20۔ یہ آیت قبل ازیں سورة الرعد کی آیت 3 اور الحجر کی آیت 19 میں گزر چکی ہے اور سورة الانبیاء کی آیت 31 ‘ سورة النحل کی آیت 61 ‘ سورة لقمان کی آیت 10 اور سورة فصلت کی آیت 10 ‘ سورة ق کی آیت 7 اور المرسلات کی آیت 27 میں بھی آئے گی اور زیر نظر آیت میں بھی اس کا بیان ہوا ہے کہ سطح زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے ، قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ آیت بیان ہوئی ہے وہاں پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکت زمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط کرنا ہے ، جب ایک چیز ایک جگہ جم کر کھڑی ہوجاتی ہے تو اس پر ” رسا “ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کو ” ثبت “ اور ” رسخ “ بھی کہتے ہیں اور اس سے بندر گاہ بھی ” مرسی “ کہلاتی ہے کیونکہ جہاز اور کشتیاں وہاں آکر ٹھہر جاتی ہیں پہاڑ بھی چونکہ ایک جگہ جم کر کھڑے رہتے ہیں اور حرکت نہیں کرتے اس لئے ان کو بھی ” رواسی “ کہ گیا اور ” تمید مید “ سے ہے جس کے معنی ہیں دائیں بائیں ڈولتے رہنا اور آیت کا ماحصل یہ ہے کہ زمین کو جب پدچا کیا گیا تو وہ اضطراری طور پر دائیں بائیں کو ڈولتی رہتی اگر اس پر پہاڑ گاڑ نہ دیئے جاتے گویا اس پر پہاڑ گاڑ کر اس کا توازن قائم کردیا ۔ اور آج کل جو زمین کی حرکت قطعیات میں ہے تو وہ اس کے منافی نہیں کیونکہ اس گاڑنے کا مطلب یہی ہے کہ زمین فی نفسہ قائم رہے ، رہی اس کی گردش تو اس کے یہ بات منافی نہیں ، زمین کو ایک جسم بنانے کے لئے گاڑنا اور بات ہے اور اس کی حرکت روزانہ یا گردش سالانہ اور بات ہے لہذا قرآن کریم کی اس آیت کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ اس سے گردش کی بحث پیدا کرکے اس کی نفی و اثبات کی بحث چھیڑ دی جائے ، قرآن کریم ایسے مضامین کا ہرگز متحمل نہیں یہ ہم یاروں کی موشگافیاں ہیں ۔ فرمایا زمین میں نہریں یعنی دریا بنا دیئے اور راہیں تیار کردیں تاکہ تم راستے پاسکو اور اپنی اپنی منزلوں کو متعین کرکے وہاں تک پہنچ سکو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ زمین میں راہیں تلاش کرنا اور ان راستوں پر چلنا اور دنیوی فوائد حاصل کرنا خود دنیا کے اندر ترقی کرنا اور دوسروں کی ترقی کی راہیں کھولنا سب ” ہدایت “ میں داخل ہے اور فی الواقع یہ ہدایت اس اخروی ہدایت کی طرف راہنمائی کرتی ہے جب کوئی رہنمائی حاصل کرنے والا ہو اور دنیوی ودینی ہدایت کے لئے کوشش کرے اور جو بندہ یا بندہ کا اصول واضح اور پکا ہے کہ جو جس بات کی تلاش کرتا ہے وہ اس کو مل جاتا ہے ۔
Top