Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور تیرے مالک کا فرمان اسچائی اور انصاف کے ساتھ پورا ہوا12 اس کی باتوں کوئی کوئی بدلنے والا نہیں13 اور وہ سنتا جانتا ہے
12 یہاں کلمہ یا کلمات سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن معجزہ اور آپ ﷺ کے صدق نبوت کی دلیل ہونے کے لیے کافی ہے کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو قسم کے ہیں اخبار اراحکام یہاں صدق کا تعلق اخبار سے ہے اور عدل کا حکام سے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تمام خبریں خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے ہو یا گزشتہ وقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے وہ سب پوے طوپر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عل و انصاف پر مستمل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا تر میم کی گنجائش نہیں ہے ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں پھر ان شیطان وساوس یا عقلی شہبات کی کوئی کنجائش باقی نہیں کبیر) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلہ میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں داخل دے رہے ہیں۔13 یعنی نہ تو اس قسم کے شہبات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور نہ اس کے اوامر نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے یا جیسے توراۃ وانجیل میں تحریف ہوئی قرآن میں ہو سکے گی۔ (رازی)
Top