Al-Qurtubi - Al-An'aam : 115
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا١ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَتَمَّتْ : اور پوری ہے كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب صِدْقًا : سچ وَّعَدْلًا : اور انصاف لَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کے کلمات وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور تمہارے پروردگار کی باتیں سّچائی اور انصاف میں پوری ہیں۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور وہ سنتا ہے ، جانتا ہے۔
آیت نمبر 115 قولہ تعالیٰ : آیت : وتمت کلمت ربک اہل کوفہ کی قرأت کلمہ واحد کے ساتھ ہے اور باقیوں کی جمع کے ساتھ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مواعید ربک ( تیرے رب کے وعدے) پس انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اور کلمات، عبارات یا متعلقات کی طرف راجع ہے اور متعلقات سے مراد وعدہ اور وعید وغیر ہیں۔ حضرت قتادہ نے بیان کیا : الکمات سے مراد قرآن کریم ہے اسے کوئی بدلنے والا نہیں، جھوٹ گھڑنے والے نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں اور نہ کمی کرسکتے ہیں۔ آیت : صدقا وعدلا یعنی اس میں جو وعدہ اور حکم ہے ( اس کی سچائی اور عدل سے) اس کے فیصلے کو کوئی رد کرنے والا نہیں اور نہ کوئی اس کا وعدہ کے خلاف ہونا ممکن ہے اور رمانی نے حضرت قتادہ سے بیان کیا ہے : جس بارے میں وہ اس کے ساتھ فیصلہ فرمائے اسے کوئی تبدیل کرنے والا نہیں، یعنی بلا شبہ اگر وہ اس کے لیے الفاظ میں تغیر و تبدل ممکن بنا دے جیسا کہ اہل کتاب نے تورات وانجیل میں تبدیلی کرلی تو پھر یہ قابلی اعتماد اور قابل اعتبار نہیں رہتا۔ اور یہ آیت قرآن کریم کی دلالات کے واجب الاتباع ہونے پر دلیل ہے، کیونکہ یہ ایسا حق ہے جسے ایسی شی کے ساتھ تبدیل کرنا ممکن نہیں جو اس کی مناقض ہو، کیونکہ یہ ایسے حکیم کی جانب سے ہے جس پر تمام امور میں سے کوئی شی مخفی نہیں ہے۔
Top