Ashraf-ul-Hawashi - At-Tawba : 95
سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ رِجْسٌ١٘ وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
سَيَحْلِفُوْنَ : اب قسمیں کھائیں گے بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے آگے اِذَا : جب انْقَلَبْتُمْ : واپس جاؤ گے تم اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لِتُعْرِضُوْا : تاکہ تم در گزر کرو عَنْھُمْ : ان سے فَاَعْرِضُوْا : سو تم منہ موڑ لو عَنْھُمْ : ان سے اِنَّھُمْ : بیشک وہ رِجْسٌ : پلید وَّمَاْوٰىھُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم جَزَآءً : بدلہ بِمَا : اس کا جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کماتے تھے
(مسلمانو) اب کوئی دن میں جب تم ان کے پاس لوٹ جائو گے تو تم سے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو3 اچھا تو تم ان سے الگ ہی رہو4 کیونکہ وہ گندے (ناپاک) ہیں5 اور جو وہ (دنیا میں) کرتے تھے اس کے بدل ان کا ٹھکانا دوزخ ہے
3 ۔ یعنی انہوں نے جو جہاد میں حصہ نہیں لیا اور گھروں میں بیٹھے رہے اس پر انہیں معذور سمجھتے ہوئے اغماض اور چشم پوشی کرو اور کسی قسم کی ملامت نہ کرو۔ (کبیر) 4 ۔ یعنی ان سے قطع تعلق کرلو اور کسی قسم کا میل جول نہ رکھو۔ پہلے فقرے میں اعراض کے معنی درگزر اور چشم پوشی کے ہیں اور یہاں اس کے معنی قطع تعلق کے۔ یعنی وہ تو صرف چشم پوشی چاہتے ہیں مگر تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ ان سے قطع تعلق ہی کرلو۔ حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے جب آپ مدینہ واپس آگئے تو آپ نے فرمایا۔ لاتجالسوھم ولا تکلموھم۔ کہ ان سے ہم مجلسی اور گفتگو ختم کردو۔ ھؤلاء طلبو اعراض الصفح فاعطوا اعراض المقت۔ یہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے تقریباً اسی آدمی تھے۔ (کبیر) 5 ۔ اس میں قطع تعلق کے سبب کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خیالات اور اعمال کے اعتبار سے گندے ہیں لہذا صحبت طالح ترا طالح کند۔ کے تحت تمہیں چاہیے کہ ان سے دور رہو مبادا ان سے متاثر ہوجاؤ (از کبیر)
Top